صحيح البخاري
امام بخاری غیر مطبوعہ کتب اخبار الصفات ، اسامی الصحابہ ، کتاب الاشریۃ المفرد ، برالوالدین، کتاب العلل، المسند الکبیر:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
اب ہم ان کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جو تاحال طبع نہیں ہوئیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی وہ تالیفات جو تاحال طبع نہیں ہوئیں وہ حسب ذیل ہیں:
اخبار الصفات:
ظاہریہ دمشق کے حوالہ سے ابن سزکین ترکی نے اپنی تاریخ میں اس کا ذکر کیا ہے ممکن ہے کہ یہ کتاب التوحید کا ہی حصہ ہو۔
اسامی الصحابہ:
ابن مندہ نے ابن فارس کی روایت سے اس کا ذکر کیا ہے اور بغوی کبیر نے معجم الصحابہ اور ابن مندہ نے معرفتہ الصحابہ میں اس کے حوالہ سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الحدی (ھدی الساری)میں اس کا ذکر کیا ہے۔
کتاب الاشریۃ المفرد:
علامہ دارقطنی نے المؤتلف والمختلف میں کیستہ کے ترجمہ میں کتاب میں الاشریہ کے نام سے اس کا ذکر کیا ہے اور الجامع الصحیح کا یہ حصہ نہیں ہے بلکہ الادب المفرد کی طرح الگ کتاب ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب بھی اہل الرای کے رد میں ہے۔
برالوالدین:
یہ محمد بن داویہ دلویہ الوزاق کی روا یت سے ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «وهو موجود مروي لنا» اور وہ مروی ہمارے پاس موجود ہے الرودانی نے صلۃالخلف میں محمد بن دلویہ کے طریق سے اپنی مرویات میں اس کو ذکر کیا ہے۔
التفسیر الکبیر المفرد:
فربری نے اس کا ذکر کیا ہے حافظ ا بن حجر خاموش ہیں۔
کتاب التوحید المفرد:
ابن سزکین نے اپنی تاریخ میں 1/1259۔ مکتبہ ظاہریہ دمشق کے نسخہ کے حوالہ سے اس کا ذکر کیا ہے اور ایک مصری نسخہ ہے جس پر الصعیدی نے کفایۃ المقتصد کے نام سے شرح لکھی ہے موجودہ دور کے بعض آسکالرز نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ کتاب التوحید دراصل الجامع الصحیح کا ہی حصہ ہے۔
الجامع الکبیر:
ابن طاہر نے اس کا ذکر کیا ہے اور یہ تواریخ ثلاثہ اور قضایا الصحابہ والتابعین کے بعد کی تصنیف ہے ابن کثیر رحمہ اللہ کے قلم سے لکھا ہوا نسخہ دار العلوم المانیا (جرمنی)میں موجود ہے۔
الضعفاء الکبیر:
الضعفاء الصغیر میں اس کا ذکر آ چکا ہے۔
کتاب العلل:
ابن مندہ نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کو محمد بن عبداللہ بن حمدون عن ابی محمد عبداللہ بن الشرقی عب البخاری روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس سلسلہ میں خامو ش ہیں غالباً اس مو ضوع پر یہ پہلی کتاب ہے کتاب العلل لا بن المدینی بھی طبع ہو چکی ہے اور علل پر امام بخاری رحمہ اللہ کی بر تری کو امام مسلم نے بھی تسلیم کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی الجامع میں امام بخاری رحمہ اللہ کے اقوال نقل کئے ہیں وسيأتي البحث
کتاب الفوائد:
امام ترمذی نے کتاب المناقب کے اثنا میں اس کا ذکر کیا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خاموش ہیں۔
کتاب المبسوط:
خلیلی نے الارشاد میں اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ مصیب بن سلیم نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کو روایت کیا ہے۔
المسند الکبیر:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے علامہ فربری نے روایت کی ہے۔
کتاب الھبتہ المفرد:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سھدی الساری میں لکھتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے وزاق کا بیان ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: میں نے کتاب الحبہ میں پانچ صد احادیث جمع کی ہیں جبکہ امام وکیع کی کتاب الحبہ میں صرف دو یا تین مسند احادیث ہیں اور ابن المبارک کی کتاب میں پانچ کے قر یب احادیث مسند ہیں باقی ان دونوں کتابوں میں آثار و اقوال ہیں۔
کتاب الوحدان:
اس میں ان صحابہ کرا م رضوان اللہ عنھم اجمعین کا ذکر ہے جن سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے ابن مندہ نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے امام مسلم اور امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرز پر کتاب الوحدان لکھی ہیں
الاعتقاد والسنہ:
امام للكائي نے شرح السنہ (1/172۔ 176)میں عبد الرحمٰن بن محمد بن عبد الرحمٰن بخاری کے طریق کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
«سمعت أبا عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري»
امام ترمذی العلل الکبیر اور العلل الصغیر میں اکثر طور پر امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں اور لکھا ہے «اكثر مانا ظرت به محمد بن اسما عيل البخاري» اسی طرح کتاب التجریخ والتعدیل لا صحاب الحدیث لا بن الجارود میں امام بخاری رحمہ اللہ کے اکثر اقوال مذکور ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے تلامذہ:
علامہ مزی نے امام بخاری رحمہ اللہ کے شیو خ اور تلامذہ کو حروف معجم کی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور تلامذہ میں امام ترمذی امام مسلم اور امام نسائی کو بھی شمار کیا ہے علامہ ذہبی رحمہ الله لکھتے ہیں۔
«وروى عنه الإمام مسلم فى غير صحيحه . وقيل: إن النسائي روى عنه فى الصيام من سننه ولم يصح، لكن قد حكى النسائي فى كتاب الكنى له أشياء عن عبد الله بن أحمد الخفاف، عن البخاري»
آپ سے امام مسلم نے اپنی صحیح کے علاوہ روایت کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن کے کتاب الصیام میں امام بخاری رحمہ اللہ سے حدیث روایت کی ہے اور یہ بات صحیح نہیں۔ لیکن امام نسائی رحمہ اللہ نے کتاب الکنی میں امام بخاری رحمہ اللہ سے عبداللہ بن احمد الخفاف کے واسطے سے کچھ چیزیں نقل کی ہیں ھامش النبلاء میں مذکور ہے۔
«بل روي عنه النسائي وقع له ذلك فى كتاب الإيمان لابن منده»
بلکہ امام نسائی نے آپ سے حدیث روایت کی ہے اس کا ذکر کتاب ایمان لا بن مندہ میں موجود ہے «حدثنا حمزة حدثنا النسا ئي حدثنا محمد بن اسما عيل»
کتاب الصیام میں ہے۔
«مُحَمَّد بْن إِسْمَاعِيل عَن حَفْص بْن عُمَر بْن الْحَارِثبن حَمْزَة بْن مُحَمَّد الكناني الْحَسَن بْن الخضر الأسيوطي»
اور ابن حیویہ کے نسخہ میں ایسے ہی ہے لیکن صوری کے نسخہ میں جو ابن النحاس بن حمزہ الکنانی عن النسائی ہے اس میں وضا حت مذکور ہے۔ «حدثنا محمد بن اسما عيل و هو ابوبكر الطبراني» صرف ابن السنی کی روایت میں حدثنا محمد بن اسماعیل البخاری کی تصریح ہے علامہ مزی لکھتے ہیں۔
«ولم يجد للنسائي غير ذا ان كان ابن السني حفظه ومانسبه من عنده معتدا انه البخاري»
اور ہمیں امام نسائی سے اس کے علاوہ کو ئی چیز نہیں ملی اگرچہ ابن السنی نے اسے محفوظ کیا ہے اور اس کو اپنی طرف سے منسو ب نہیں کیا یہ اعتقاد رکھتے ہو ئے کہ یہ محمد بن اسمٰعیل بخاری ہیں۔
یعنی اگر ابن السنی نے اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا اور روایت کو حفظ کیا ہے تو پھر یہ صحیح ہے۔ ویسے امام نسائی عموماً محمد بن اسما عیل بن ابرا ہیم سے روایت کرتے ہیں لیکن وہ ابن علیہ ہیں ہاں کتاب الکنی میں عبداللہ بن احمد الخفاف کے واسطہ سے امام بخاری رحمہ اللہ سے چند احادیث درج کی ہیں لہٰذا یہ با ت قرین قیاس ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے ان کی ملاقات نہیں ہے باقی رہے امام مسلم اور ترمذی تو ان کا تلمذ مشہور ہے لیکن امام مسلم نے الصحیح میں مامام بخاری رحمہ اللہ سے کو ئی حدیث درج نہیں کی اور نہ ہی امام ترمذی نے کوئی مسند حدیث امام بخاری رحمہ اللہ سے روایت کی ہے جبکہ امام مسلم اور ابوداود سے ایک ایک روا یت جامع ترمذی میں مذکور ہیں چنانچہ امام مسلم سے حدیث «أحصوا هلال شعبان لرمضان» روا یت کی ہے علامہ عراقی لکھتے ہیں کہ امام ترمذی نے امام مسلم سے صرف یہ حدیث روا یت کی ہے اور یہ من قبیل روا یتہ الاقران ہے کیونکہ یہ دونوں بہت سے شیوخ میں مشترک ہیں اور «باب ماجا ء فى الر جا ل ينام عن الوتر» اس میں حدیث عبد الرحمن بن زید بن اسلم مرفوعاً ذکر کرنے کے بعد عبداللہ بن زید اسلم سے مرسلاً روا یت کرنے کے بعد لکھتے ہیں میں نے ابوداؤد سجزی سلیمان بن اشعت سے یہ کہتے ہو ئے سنا کہ میں نے عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا کہ اس کے بھا ئی عبداللہ کے متعلق کوئی باس نہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے علی بن المدینی سے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمٰن ضعیف ہے اور عبداللہ ثقہ ہے۔ معلوم ہوا کہ امام ابوداؤد سے سند حدیث نقل نہیں کی بلکہ عبد الرحمٰن پر جرح نقل کی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ سے تلمز پر ہم نے امام ترمذی رحمہ الله پر اپنے مقالہ میں مفصل لکھا ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.