صحيح البخاري
امام بخاری اور الجامع الصحیح / سماع و کتابت حدیث کا طریقہ / شیوخ / جملہ معترضہ لفظی بالقرآن مخلوق:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح صاحب کی شخصیت جماعتی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں۔ آپ الابر علماء میں سے ہیں آپ نے جہاں قریباً نصف صدی وطن عزیز کے اہم جامعات و مدارس کو اپنی تدریسی خدمات سے سر فراز فرمایا وہاں آپ کی تسنیفی و تالیفی خدمات بھی ملت کے علمی سر ما ئے میں گرانقدر اضافے کا موجب بنیں پاکستان بھر میں آپ کے فیض یافتہ علماء کی ایک بڑی تعداد دینی خدمات میں مصروف ہے تدریس کے میدان میں تو آپ یگانہ روز گا ر شخصیت ہیں۔ دوران تعلیم مشکل سے مشکل عبارتوں اور مسائل کو عام فہم انداز میں حل کر دینا آپ کی تدریس کا امتیازی وصف رہا ہے آپ معروف مدارس میں سالہا سال تک شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے ہیں تدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی آپ نے بھر پور حصہ لیا تصنیف و تحقیق کے میدان میں آپ کے رشحات فکر علم و تحقیق کے شائقین کی الجھنوں کو رفع کرنے کا باعث بنتے رہے حضرت کی بڑی تصانیف میں قرآن کریم کی فتسیر موسوم باشرف الحواشی اور امام راغب کی المفردات کا اردو ترجمہ مع حواشی شامل ہیں کتاب احکام الجنائز میں آپ نے مسا ئل جنازہ پر سیر حاصل بحث کی ہے آپ علم حدیث سے خصوصی شغف رکھتے ہیں آپ کی تحریر محققانہ اسلوب میں ڈھلی ہو ئی ہے فن حدیث میں آپ نے گرانقدر تصنیفی خدمات بھی انجام دی ہیں جن میں مراسیل ابی داؤد کو مسند بنا کر اس کی تخریج و تحقیق بھی شامل ہے موجودہ دور میں ذوق حدیث رو بہ زوال ہے ان حالات میں آپ جیسے استاذ علم کی نگا ر شات علماء و طلبا کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہیں زیر نظر مضمون موصوف کا طویل و عریض مقالہ ہے جو امیرا لمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی علمی زندگی کے تعارف اور ان کی جامع صحیح سے متعلقہ علمی مباحث کا خزانہ ہے امید ہے قارئین محدث اس سے بھرپور استفادہ کریں گے ان شا اللہ۔ (ادارہ)
ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرۃ بن بروزبہ۔ البخاری
194ھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 256ھ
امام المحدثین کی علمی زندگی کا مختصر سا خاکہ
ان اوراق میں ہم اولاً امام المحدثین کی علمی زندگی کا مختصر سا خاکہ پیش کریں گے اس کے بعد الجامع الصحیح کا تعارف اس کی فنی اور فقہی اہمیت کو واضح کریں گے فقہاء وافاضل کی نظر میں اس کی قدر و قیمت کیا ہے؟ یہ مقالہ الجامع الصحیح کے جملہ پہلوؤں پر حاوی ہو گا اور اس کی دراست میں علمی فوائد کو موضوع بحث بنایا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی علمی زندگی:
تمام مآخذ اور مراجع اس پر متفق ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے امام المحدثین کے والد گرامی امام اسماعیل بن ابراہیم ممتاز محدث اور صاحب اسناد تھے انہوں نے امام مالک رحمہ الله سے حدث کا سماع کیا حماد بن زید سے شرف روایت حاصل ہوا اور امام عبداللہ بن مبارک کے ساتھ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کی نسبت حاصل کی ابن حبان کتاب الثقات میں لکھتے ہیں اور ابن ابی حاتم وراق البخاری نے بھی کتاب شمائل البخاری میں تصریح کی ہے:
«إسماعيل بن إبراهيم والد البخاري , يروي عن: حماد بن زيد , ومالك , روى عنه: العراقيون»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس پر اضافہ کرتے ہیں:
«رواه عنه يحيٰ بن جعفر ابيكندي وغيره»
آپ سے یحییٰ بن جعفر بیکندی وغیرہ نے روایت کی ہے یہ یحییٰ بن جعفر امام عبدالرزاق کے تلامذہ سے تھے اور انہوں نے امام عبدالرزاق کی کتابیں جمع کی تھیں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام عبد الرزاق کی کتابیں انہی سے حاصل کی تھیں مشہور ہے کہ جب امام بخاری رحمہ اللہ نے بصرہ سے یمن جانے کا ارادہ کیا تاکہ عبد الرزاق سے سماع کر تو بیکندی نے امام بخاری رحمہ اللہ کو بتایا کہ عبد الرزاق فوت ہو چکے ہیں اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یمن کا سفر چھوڑ دیا حالانکہ امام عبدالرزاق زندہ تھے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یحییٰ بن جعفر فی نفسہ ثقہ ہیں ان کو غلط خبر پہنچی تھی جو انہوں نے شائع کر دی مولانا عبد الالسلام مبارکپوری سیرت بخاری صفحہ نمبر 41 میں مزید لکھتے ہیں۔ اھل عراق، احمد بن حفص اور نصر بن الحسین وغیرھما اسماعیل کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔
الغرض امام بخاری رحمہ اللہ کو خاندانی طور پر علمی شرف حاصل تھا باپ بیٹا دونوں نامور محدث تھے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے مال کے ساتھ علم بھی ورثہ میں پایا تھا عبداللہ بن المبارک اور وکیع کی کتابیں اور جامع سفیان ثوری رحمہ الله وغیرہ جیسی کتب امام بخاری رحمہ اللہ کے خاندانی کتب خانہ میں موجود تھیں جو تحصیل حدیث میں ان کے لیے معاون ثابت ہو ئیں۔
علامہ قسطلانی اسی خاندانی ورثہ کی طرف ارشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
«فقد رُبِّى فى حجر العلم حتى ربا وارتضع ثدي الفضل فكان فطامه على هذا اللبا»
پس آپ نے علم کی گود میں نشوونما پائی حتی کہ آپ کی رضاعت اور پرورش علم و فضل میں ہوئی اور دودھ چھڑانے کا زمانہ بھی اسی کھیس پر گزرا۔
علم حدیث کا سماع:
دس سال کی عمر میں ہی حفظ حدیث کا شوق دامن گیر ہو گیا۔ چنانچہ کتاب (مکتب) سے نکل کر بخارا اور کے اطراف واکناف میں محدثین کی مجالس حدیث میں شریک ہونا شروع کر دیا۔ بخارا میں اس وقت محمد بن سلام الیکن دی (225ھ)محمد بن یوسف الیکن دی عبداللہ بن محمد المسندی (م229ھ) ابراہیم بن اشعت اور علامہ داخلی تو معلوم نہیں ہو سکا البتہ ان کے حلقہ درس میں امام بخاری رحمہ اللہ کی علمی دلچسپیوں کے بعض واقعات مراجع میں ملتے ہیں۔
علامہ داخلی جو بخارا میں اس وقت بڑے پایہ کے محدث تھے اور ان کی درسگاہ بڑی پر رونق اور مشہور تھی حسب معمول درس دے رہے تھے کہ انہوں نے ایک حدیث کی سند یوں بیان کی: «سفيان عن أبى الزبير عن إبراهيم» اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے عرض کی «إن أبا الزبير لم يرو عن إبراهيم» یعنی سند میں توھم ہے اس پر شیخ جھلائے پہلے تو برھم ہو ئے مگر جب دوبارہ سنجیدگی سے وضاحت کی اگر آپ کے پاس اصل ہے تو اس کی طرف رجوع کریں چنانچہ انہوں نے اپنے اصل کی طرف رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور اپنی اس غلطی پر متنبہ ہو گئے اور امام بخاری رحمہ اللہ سے سند دریافت کی امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل سند بیان کی «الزبير وهو ابن عدي عن ابراهيم» تو اس کے مطابق استاذ نے اپنے اصل کو درست کر لیا امام بخاری رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ اس وقت میری عمر دس برس کی تھی امام بخاری رحمہ اللہ کے اور اق ابن حاتم نے امام بخاری رحمہ اللہ کی زبانی ایک دوسرا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔
«كان شيخ يمر بنا فى مجلس الداخلي، فأخبره بالاحاديث الصحيحة مما يعرض على، وأخبره بقولهم، فإذا هو يقول لي يوما: يا أبا عبدالله، رئيسنا فى أبو جاد بلغني أن أبا عبد الله شرب البلاذر للحفظ، فقلت له: هل من دواء يشربه الرجل للحفظ؟ فقال: لا أعلم . ثم أقبل على وقال: لا أعلم شيئاً أنفع لحفظ من نهمة الرجل ومداومة النظر»
شیخ۔۔ امام داخلی کی مجلس میں ہمارے پاس سے گزرا کرتے تھے تو انہوں نے ان کو ان صحیح حدیثوں کے بارے میں بتایا جو مجھ پر پیش کی جاتی تھیں اور ان کو ان کے قول کی بھی خبر دی کہ ان کو ایک دن کہہ رہے تھے، اے ابوعبداللہ جو ہمارا رئیس ابوجاد میں ہے ان سے کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ابوعبداللہ نے حافظے کے لیے دوائی بھی لی ہے جس کو بلاذر کہا جاتا ہے میں نے انہیں ایک دن خلوت میں کہا کیا کو ئی ایسی دوائی ہے جس کے پینے سے آدمی کے حافظے کو نفع پہنچتا ہے تو کہنے لے میں نہیں جانتا۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں حافظے کے لیے آدمی کے شوق اور اس کے ہمیشہ غور و فکر سے زیادہ نفع والی چیز کو ئی نہیں جانتا علامہ داخلی کے علاوہ دیگر شیوخ سے بھی بخاری نے فنون حدیث کا وافر ذخیرہ جمع کیا خاص طور پر علامہ بیکندی (محمد بن سلام) جو بڑے پایہ کے محدث تھے اور وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی ذہانت و فطانت سے بہت متاثر تھے حتی کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی موجودگی میں محدث بیان کرنے سے خوف کھاتے۔ بعض شیوخ نے بیان کیا ہے کہ اس دور میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سولہ سالہ کی عمر تک ستر ہزار احادیث حفظ کر لی تھیں۔
علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ اسی نو عمری کے زمانہ میں فقہاء اہل الرائے کی مجالس میں بھی چکر لگا تے رہے وراق کا بیان ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«أختلف إلى الفقهاء بمرو وأنا صبي , حتيٰ حفظت كتب ابن المبارك و وكيع وعرفت كـلام هولاء يعني اهل الراي»
مرو میں بچپن سے ہی فقہاء کی طرف آیا جایا کرتا تھا یہاں تک کے میں نے ابن المبارک اور وکیع کی کتابوں کو حفظ کر لیا اور اہل رائے کی کلام کو بھی سمجھ لیا۔
رحلات علمیہ:
الغرض جب امام بخاری رحمہ اللہ سولہ سال کی عمر کو پہنچے اور بخارا اور اس کے اطراف و اکناف سے علم حدیث جمع کر لیا تو 10ھ میں اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بھائی احمد بن اسماعیل کے ساتھ زیارت بیت اللہ کے لیے حجاز کو روانہ ہوئے اور حج سے فراغت کے بعد والدہ محترمہ اور بھائی تو واپس چلے آئے اور امام موصوف رحمہ الله طلب علم کے لیے حجاز ہی ٹھہر گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس سے قبل عرصہ چھ سال نیشاپور اور اس کے نواح میں طلب علم کے لیے سفر کر چکے جو ان کی رحلات قدیمہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اور ہم ان کو داخلی رحلات بھی کہہ سکتے ہیں اب محدثین کے طریق پر سماع حدیث کے لیے مراکز اسلامی حجاز عراق شام اور مصر کی طرف رحلات کا آغاز کیا تاکہ ان اسلامیہ کے مشائخ حدیث سے حدیث کا سماع اور اس کی کتابت کی جا ئے۔ محدثین کی رحلات علمیہ بہت سے فوائد کا موجب بنیں۔ اول یہ کہ مختلف بلاد میں حدیث کا منتشر ذخیرہ یکجا ہوتا گیا محدثین اگر صعوبات سفر اٹھا کر حدیث جمع نہ کرتے تو حدیث کا ضیاع یقینی ہو جاتا دوم یہ کہ رحلات سے مختلف مراکز حدیث کا بھی علم ہوتا گیا اور ہر مرکز میں مشائخ حدیث تاریخ میں مدون ہو تے گئے اور تحریک اہلحدیث کی تاریخ تدوین میں سہولت پیدا ہو گئی نیز علو اسناد کے حصول میں مدد ملی۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی ان رحلات میں علو اسناد سے شرف ہو ئے اور اس علو کا حل یہ ہے کہ آپ کے بعض شیوخ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے ہم طبقہ نظر آتے ہیں مثلاً محمد بن عبداللہ انصاری ابونعیم علی بن عیاش عبید اللہ بن مو سیٰ خلاد بن یحی اور عصام بن خالد وہ شیوخ ہیں کہ ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تک صرف دو تین واسطے ہیں اور امام مکی بن ابراہیم کی ثلاثیا ت تو مشہور معروف ہی ہیں۔
الغرض سب سے پہلے آپ نے حجاز کی طرف رحلت (سفر) کی جو علوم اسلامیہ کا مرکز اول ہے جبکہ آپ کی عمر سولہ سال کی تھی اور ابن مبارک اور وکیع کی کتابوں کو حفظ کر چکے تھے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں اور پھر فقہ اہل الرائے پر بھی کا مل دسترس حاصل ہو چکی تھی امام بخاری رحمہ اللہ خود ہی اس حجازی سفر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
«لقيت أكثر من ألف شيخ من أهل الحجاز ومكة والمدينة والبصرة وواسط و بغداد والشام»
میں نے اہل حجاز مکہ، مدینہ، بصرہ واسط بغداد اور شام کے ایک ہزار سے زائد شیوخ سے ملاقات کی اور پھر اپنے سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
میں شام اور جزیرہ گیا اور دو مرتبہ مصر پہنچا اور چار مرتبہ بصرہ اور پورے چھ سال حجاز میں اقامت کی اور پھر محدثین خراسان کے ساتھ کتنی مرتبہ کوفہ اور بغداد میں پہنچا۔
رحلت جزیرہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو جزیرہ کی طرف سفر کا ذکر کیا ہے اور تاریخ ابن عساکر تاریخ حاکم اور طبقات سبکی میں بھی جزیرہ کی طرف سفر کا ذکر ملتا ہے اور یہ بھی مذکور ہے کہ جزیرہ جا کر احمد بن عبد المالک بن واقد الحرانی، احمد بن ولید الحرانی، اسماعیل بن زرارۃ الرقی اور عمر بن خالد سے سماع کیا لیکن علامہ المزی لکھتے ہیں کہ یہ تو ہم ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جزیرہ پہنچ کر مذکورہ شیوخ سے سماع نہیں کیا بلکہ احمد بن ولید سے تو امام بخاری رحمہ اللہ نے بالواسطہ روایت کی ہے اسی طرح ابن زرارۃ سے بھی سماع حاصل نہیں البتہ اسماعیل بن عبداللہ سے روایت کی ہے تو ہم یہ دراصل اسماعیل بن ابی اویس ہیں اور ابن واقد سے بغداد میں سماع کیا ہے اور عمرو بن خالد سے مصر میں پھر جن ایک ہزار اسی (1080) شیوخ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث لکھی ان کے مسلک کے متعلق خود امام موصوف فرماتے ہیں۔
«تبت عن ألف وثمانين رجلا، ليس فيهم إلا صاحب حديث، كانوا يقولون: الإيمان قول وعمل»
اور ایک ہزار انہی شیوخ سے حدیث لکھی جو سارے اصحاب حدیث تھے اور جن کا یہ اعتقاد تھا کہ ایمان قول اور عمل کانا م ہے۔
اور دوسری روایت میں ہے:
«كتبت عن ألف ثقة من العلماء وزيادة، وليس عندي حديث لا أذكر إسناده»
میں نے ایک ہزارسے زائد علماء سے حدیث نقل کی ہے اور میرے پاس ایسی کوئی حدیث نہیں جس کی سند مجھے یاد نہ ہو۔
مزید امام بخاری رحمہ اللہ کے وراق کا بیان ہے۔ پھر جب میں بلخ گیا تو لوگوں نے املاء کی درخواست کی چنانچہ میں نے ایک ہزار شیخ سے ایک ہزار حدیث لکھوائی یعنی ہر ایک سے ایک حدیث گویا یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی معجم تھی۔ نیز اپنے شیوخ کے متعلق فرماتے ہیں۔
میرے شیوخ میں معتدبہ حصہ ان شیوخ کا ہے جو سماع قدیم اور علو اسناد کے ساتھ متصف تھے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے ایسے شیوخ کی تعداد نوے بتائی ہے اور بالاسیتعاب ان کی فہرست دی ہے اور امام نووی نے امام حاکم رحمہ اللہ کی دی ہو ئی فہرست تہذیب الاسماء میں مکمل طور پر نقل کر دی ہے اس فہرست میں اس دور کے کبار آئمہ محدثین شامل ہیں۔ ہم چند کے نام بطور مثال ذکر کرتے ہیں۔
➊ مکی بن ابرا ہیم (215ھ)
➋ عبداللہ بن موسیٰ العسبی (212ھ)
➌ محمد بن ہیوسف الفریا بی (212ھ)
➍ اسحاق بن راھویہ (238ھ)
➎ ابوبکر الحمیدی (219ھ)
➏ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241ھ)
➐ امام العصر علی بن المدینی (234ھ)
حجازی رحلت میں جن سے استفادہ کیا ان میں ابوالولید احمد الازرقی (صاحب تاریخ مکہ) اور علامہ الحمیدی صاھب المسند معروف ہیں آپ 212ھ کو مدینہ النبی وارد ہوئے اور مسجد میں چاندنی رواتوں میں التاریخ الکبیر کا مسودہ تیار کیا اور حجاز کے سفر میں آپ نے سب سے پہلی کتاب قضایا الضحا مدون کی۔
بصرہ میں عاصم النیل حافظ ابوالولید الطیا لسی وغیرھما سے احادیث کی روا یت اخذا کی۔ الغرض جملہ بلاد اسلامیہ کا چکر لگایا، بغداد ی لکھتے ہیں۔
«رحل البخاري إلى محدثي الأمصار، وكتب عنهم»
امام بخاری رحمہ اللہ نے محدثین امصار کی طرف سفر کیا اور ان سے حدیث لکھی۔
کتابت حدیث کا طریق:
امام بخاری رحمہ اللہ کتابت حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
«لم تكن كتابتي الحديث كما كتب هؤلاء , كنت إذا كتبت عن رجل سألته عن اسمه وكنيته ونسبه , وعلة الحديث إن كان الرجل فهما , فإن لم يكن سألته أن يخرج لي أصله ونسخته , وأما الآخرون فلا يبالون ما يكتبون , ولا كيف يكتبون»
میرا حدیث لکھنا عام لوگوں کی طرح نہیں تھاکیونکہ جب میں کسی آدمی سے حدیث لکھتا تو اس سے اس کے نام اور اس کی کنیت اور نسب کے بارے میں سوال کرتا اور اگر آدمی ذوفہم ہوتا تو حدیث کی علت کے بارے میں بھی سوال کرتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے مطالبہ کرتاکہ اس کے اصل نسخہ کو میرے سامنے پیش کر دے باقی رہے دوسرے لوگ تو وہ پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کیا لکھتے ہیں اور کیسے لکھتے ہیں۔ اور عباس دوری رحمہ الله کا بیان ہے میں نے محمد بن اسماعیل سے بہتر کسی طالب حدیث کو نہیں دیکھا۔ وہ کوئی اصل اور فرع نہ چھوڑتے مگر اس تک پہنچ جا تے پھر دوری رحمہ الله ہمیں مخاطب کر کے کہتے: «لا تدعوا من كلامه شيئا إلا كتبتموه» کہ ان کی ہر بات نوٹ کرتے جاؤ۔
شیوخ بخاری کے مراتب:
علماء نے امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔
(الف) طبقہ اعلیٰ یعنی وہ شیوخ جنہوں نے تابعین سے حدیث روایت کی ہیں۔ ان میں ابوعاصم النیل (218ھ) مکی بن ابراہیم (212ھ) محمد بن عبداللہ انصاری 215ھ) عبیداللہ بن موسیٰ باذام العبسی (212ھ)ابونعیم الملائی (214ھ) اور ابوالمغیرۃ وغیرھما شامل ہیں۔
(ب) وہ شیوخ جو اوزاع، ابن ابی ذئب شعبہ ثوری اور شعیب بن ابی حمزہ سے روا یت کرتے ہیں۔ مثلاً ایوب بن سلیمان (224ھ) حجاج بن منھال (217ھ) اور آدم بن ابی ایاس الخراسانی (220ھ) وغیرھما شامل ہیں۔
(ج) وہ شیوخ جو امام مالک امام اللیث، حماد بن زید اور ابی عوانہ کے اصحاب میں سے ہیں: اس تیسرے طبقہ میں احمد بن حنبل (241ھ) اسحاق بن راھویہ (238ھ) یحییٰ بن معین (233ھ) اور علی بن عبداللہ بن جعفر (234ھ) وغیرھم شمار ہوتے ہیں۔
(د) اس طبقہ کے شیوخ میں ان المبارک ابن عینہ ابن وھب اور ولید بن مسلم کے اصحاب شامل ہیں۔
(ھ) جو امام بخاری رحمہ اللہ کے ہم عصر بھی ہیں مثلاً محمد بن یحیی الذھلی (258ھ) ابوحا تم رازی عبداللہ بن عبد الرحمٰن الدارمی (255ھ) وغیرھم اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جو سن و اسناد کے اعتبار سے امام بخاری رحمہ اللہ کے تلامذہ کے برابر تھے اور شیوخ کا یہ طبقہ وہ ہے جن سے امام بخاری رحمہ اللہ نے مستقل طور پر ان کی مجالس میں حدیث حاصل نہیں کی بلکہ اصل شیخ کی مجلس میں کو ئی حدیث رہ گئی تو ان سے اخذا کر لی۔ شیوخ کے اس طبقہ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
«رفقاؤه فى الطلب، ومن سمع قبله قليلا، كمحمد بن يحيى الذهلي وغيره»
آپ کے طلب حدیث کے رفقاء اور وہ جنہوں نے آپ سے تھوڑی دیر قبل پہلے اسماع کیا جس طرح محمد بن یحیی الذہلی وغیرہ۔
جملہ معترضہ:
علامہ شبلی سیرۃ النعمان لکھتے ہیں کہ امام ذھلی نے امام بخاری رحمہ اللہ کو لفظی بالقرآن مخلوق کی وجہ سے اپنی مجلس سے نکال دیا تھا حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ جب ان کے تلامذہ سے ہی نہیں تھے جو باقاعدہ مجلس میں بیٹھتے تو پھر نکال دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ امام ذھلی نے جب یہ اعلان کرایا کہ جو شخص لفظی بالقرآن مخلوق کا قائل ہے وہ ہماری مجلس میں شریک نہ ہو تو امام مسلم سخت برانگیختہ ہو کر ذھلی کی مجلس سے اٹھ کر چلے آئے اور امام ذھلی سے جو مسودے لکھے تھے وہ سب ذھلی کے پاس واپس بھیج دئیے اور ان سے کوئی روایت نہیں کی۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.