تصانیف و تالیف امام بخاری، تصنیف و تالیف کا آغاز، چند مطبوعہ کتب:
تحریر: حضرت مولانا مفتی محمد عبدۃ الفلاح حفظ اللہ
تصنیف و تالیف کا آغاز:
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
”جب میں اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچا تو تصنیف و تا لیف کی ابتداء کر دی“ان کا بیان ہے کہ میں مسجد نبوی میں روضہ اطہر کے جوار میں بیٹھ کر چاندنی راتوں میں تاریخ لکھا کرتا تھا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں اٹھارہ سال کی عمر میں مدینہ پہنچے اور اسی سفر میں انہوں نے تاریخ کبیر کا مسودہ چاندنی راتوں میں لکھا۔
”التاریخ الکبیر“ امام بخاری رحمہ اللہ کا وہ شاہکار ہے جسے دیکھ کر امام اسحاق بن راھویہ نے فرط مسرت سے «سحر» فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے۔
«وقلَّ اسم فى التاريخ إلا وله عندي قصة إلا أني كرهت أن يطول الكتاب ”»
”تاریخ میں ایسا کم ہی کو ئی نا م ہو گا جس کے بارے میں میرے پاس کوئی قصہ نہ ہو مگر کتاب کی طوالت کی وجہ سے میں نے اس کو ذکر نہیں کیا۔“
اس تاریخ پر بعض علماء نے حواشی بھی لکھے ہیں جن میں مسلمہ بن قاسم کا حاشیہ معروف ہے بہت سے علماء نے امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کتاب کو روایت کیا ہے بطور مثال:
➊ ابوعبداللہ احمد بن محمد بن سلیمان بن فارس
➋ ابوالحسن محمد بن سھل اللغوی النسوی
➌ الدلال عبد الرحمٰن بن الفضل
الدلال ابن الفضل اور ابن السھل کی رو ایت کو ابن خیر نے ”الفھررستہ“میں صفحہ 2، 4۔ 205 میں ذکر کیا ہے اور ابن فارس کی روا یت کو الرودانی (1094ھ) نے ”صلۃ الخلف“میں اور ابن سھل کی روا ہیت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التغلیق میں ذکر کیا ہے۔ اور ابن سھل والا نسخہ حیدر آباد سے طبع ہو کر شا ئع ہو چکا ہے اور مصح عبد الرحمٰن معلی نے اس کی تصحیح میں جو صعوبات اٹھائی ہیں تعلیقات میں ان کے اشارے ملتے ہیں اور ہم پورے دعوی سے نہیں کہہ سکتے کہ پور انسخہ کماحقہ محقق اور صحیح ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ کبیر اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
«محمد بن إسماعيل فى التاريخ كتاب لم يسبق إليه . منهم من نسبه إلى نفسه مثل أبى زرعة، وأبي حاتم، و مسلم . ومنهم من حكاه عنه . فالله يرحمه، فإنه الذى أصل الأصول»
”اور محمد بن اسماعیل کی تا ریخ میں کتاب ایسی ہے جس پر کسی نے سبقت نہیں کی اور جس شخص نے بھی ان کے بعد تاریخ اسماء اور کنی میں کچھ تا لیف کیا وہ ان سے مستغنی نہیں ہوا اور بعض نے تو اس کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جیسے ابوزرعہ اور ابوحاتم ہیں اور بعض نے اس کو آپ سے حکا یت کیا ہے اللہ ان پر رحم کرے پس آپ اصل الاصول ہیں۔“
تاریخ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے الاوسط اور الصغیر بھی لکھی ہیں اور یہ تینوں تواریخ ثلاثہ کے نام سے معروف ہیں تاہم اوسط اور صغیر میں کچھ خلط ملظ ہے تاریخ صغیر تو مطبوع ہے لیکن اوسط کے متعلق کچھ علم نہیں ہو سکا۔
بعض کا خیال ہے کہ التاریخ الصغیر دراصل ”کتاب الضعفاء“ کا دوسرا نام ہے اور جو صغیر مطبوع ہے وہ درصل اوسط ہے معلمی نے حیدر آباد میں مطبوع کو ہی تاریخ صغیر قرا دیا ہے اور الاوسط کا بعض مکتبات کے حوالہ سے ذکر کر دیا ہے الاوسط کا راوی زنجویہ بن محمد اور عبداللہ بن احمد الخلفاف ہیں ابن خیر نے ان دونوں کے طریق سے ذکر کیا ہے اور ابن حجر نے”الھدی“ میں بھی ان دونوں کی روا یت بتائی ہے لیکن الصغیر کے راوی بقول ابن حجر عبداللہ بن محمد بن عبد الرحمٰن الاشقر ہیں اور الاشقر کے طریق سے الرودانی نے ”صلۃ الخلف“میں اس کا ذکر کیا ہے۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ذہبی ”امیزان“میں قیس بن الربیع کے متعلق الاوسط سے نقل کرتے ہیں اور وہ عبارت بعینہ مطبوع میں پائی جاتی ہے بروکلمن لکھتے ہیں:
«ﺍﻟﺘﺎﺭﻳﺦ ﺍﻷﻭﺳﻂ . ﻭﻫﻮ ﻣﺮﺗﺐ ﺣﺴﺐ . ﺍﻷﺯﻣﻨﺔ»
”تاریخ اوسط یہ کتاب زمانوں کے اعتبار سے مرتب ہے“ اور الصغیر کے متعلق الرودانی ”صلۃ الخلف“ میں لکھتے ہیں۔
«هذا التاريخ خاص بالصحابة وهو اول مصنف فى ذلك»
اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ خاص ہے اور یہ اس موضوع پر پہلی تصنیف ہے۔
ابن ابی حاتم نے خطاً البخاری فی تاریخہ کے نام سے امام بخاری رحمہ اللہ کا رد کیا ہے اور اس سلسلہ میں ابوزرعہ اور اپنے والد ابوحاتم کے اقوال نقل کئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابوزرعہ اور ابوحاتم نے حرف بحرف تاریخ بخاری کو بنظر غائر پڑھا ہے اور کتاب الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم سے اگر ابوحاتم ابوزرعہ ابن معین اور احمد کے کلام کو تعلیل و تجریح کے سلسلہ میں نکال دیا جا ئے تو یہ تاریخ بخاری ہی ہے اور انہوں نے جو کچھ لکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ سے از خود مرفوع نظر آتا ہے اور یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔
کتاب الکنی امام مسلم نے اپنے ”الکنی“ میں اس سے خوب استفادہ کیا ہے اور ابواحمد الکبیر نے بھی اپنے ”الکنی“میں اس کتاب سے فائدہ اٹھا یا ہے حیدر آباد کن سے طبع ہو کر شائع ہو چکی ہے۔
الضعفاء الصغیر یہ تاریخ صغیر کے علاوہ ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
«رواه عن البخاري أبو بشر محمد بن أحمد بن حماد الدولابي، وأبو جعفر مسبح بن سعيد، وأدم بن موسى . الخوارزمي»
اس کو امام بخاری رحمہ اللہ سے ابوبشر الدوالابی اور ابوجعفر بن سعید اور آدم بن موسیٰ الخوارزمی نے روا یت کیا ہے۔ مسیح کی روایت کو ابن خیر نے اپنی فہرست میں ذکر کیا ہے اور آدم بن موسیٰ والی روایت مطبوع ہے جو کہ ابونعیم الاصبہانی کی روا یت سے ہے۔
الادب المفرد یہ احمد بن محمد الباز کی روا یت سے ہے اور یہ بزازوہ نہیں ہے جو صاحب مسند ہے یہ کتاب متعدد مرتبہ متحدہ ہندوستان اور مصر میں طبع ہو چکی ہے محمد فواد عبد الباقی کی تصحیح سے جونسخہ شائع ہوا ہے وہ قابل اعتماد ہے۔
خلق افعا ل العباد یہ کتاب طبع ہو چکی ہے لیکن مصنف تک سند مذکور نہیں ہے ہاں الردوانی نے ”صلۃ الخلف“ میں فربری کے طریق سے روا یت کی ہے فہرستہ لابن خیر میں بھی فربری اور یوسف بن ریحان کی روایات مذکور ہیں اس ضمن میں کلام اللہ اور کلام العباد میں فر ق مذکورہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ جو شخص میری طرف ”لفظی بالقرآن مخلوق“ کی نسبت کرتا ہے وہ کذاب ہے میں نے تو صرف یہ کہا ہے ”افعا ل العباد مخلوقہ ”مگر“ والحسد فإنه ليس له دواء
جزء رفع الیدین یہ رسالہ متعدد مرتبہ زبور طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے مگر پوری صحت کے ساتھ شائع نہیں ہوا اور پھر معلوم نہیں ہو سکا کہ اس رسالہ کا نام قرة العينين برفع اليدين في الصلاة کہاں سے اخذا کیا گیا ہے۔
القراء ۃ خلف الامام یہ رسالہ محمود بن اسحاق الجزاعیعن البخاری کی روا یت سے ہے اور یہ رسالہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی مرویات سے ہے كما ذكر الحافظ ابن حجر رحمہ اللہ في مقدمة (الفتح امام بیہقی نے بھی ”القراءۃ خلف الامام“ کتاب لکھی ہے۔
. . . اصل مضمون دیکھیں . . .
شمارہ محدث جنوری 1993، امام بخاری اور الجامع الصحیح