موطا امام مالک کا تعارف:
نام، وجہ تسمیہ اور تلفظ
اس مایہ ناز کتاب کا نام ’موطا‘ ہے، جس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ امام مالک کی نسبت سے اسے ’موطا امام مالک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ بعض دفعہ موطا کی نسبت امام صاحب کے بعض تلامذہ یعنی راویانِ موطا کی طرف بھی کردی جاتی ہے، مثلاً کہا جاتا ہے: ’ موطا امام محمد‘ لیکن بہتر یہ ہے کہ ’موطا مالک بروایتِ محمد‘ جیسی کوئی تعبیر استعمال کی جائے، تاکہ کسی قسم کا کوئی اشکال پیدا نہ ہو کیونکہ امام محمد کی موطا نامی کتاب کوئی مستقل تصنیف نہیں، بلکہ وہ موطأ مالک کی ایک روایت ہے۔ جس میں 3686 کی بجائے 1008 مرویات [31] ہیں۔
موطأ نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ موطأ توطِئة سے ہے، جس کا مطلب ہے ”کسی چیز کو آسان ومیسر کر دینا۔ “ [32] چونکہ امام صاحب کا مقصد حدیث وفقہ کو ایک سہل اُسلوب میں پیش کرنا تھا، اس لیے اس کا نام موطأ رکھا گیا۔ [33] ایک اور وجہ تسمیہ بھی بیان کی جاتی ہے جو کہ امام صاحب کے درج ذیل قول سے ماخوذ ہے:
"عرضت كتابي هٰذا على سبعين فقيهًا من فقهاء المدينة فكلّهم واطأني عليه فسميته الموطأ." [34]
میں نے یہ کتاب مدینہ کے ستر فقہا کے سامنے پیش کی، سب نے اس کے متعلق رضامندی و موافقت کا اظہارکیا، لہذا اس کا نام ’موطا‘ رکھ دیا۔
اس طرح یہ موطا مواطَأة یعنی موافقة سے ہوگا، لیکن اس میں ایک اشکال ہے کہ مواطأة باب مفاعَلة ہے، جبکہ موطأ باب تفعیل سے ہے جس کا حل یوں کیا جاسکتا ہے کہ توطئة باب تفعیل کو’ تنقیح وتحریر ‘ کے معنی میں لیا جائے، اور یہ توجیہ کی جائے کہ جب ستر فقہائے مدینہ نے کتاب کے مندرجات کو دیکھا، اس کی جانچ پڑتال کی، تو گویا وہ تنقیح و تحریر کے بعد موطأ کہلانے کی حقدار ٹھہری۔ و اللّٰہ اعلم!
یہاں یہ فائدہ بھی قابل ذکر ہے کہ لفظ موطأ میں لغوی طور پر دو وجہیں جائز ہیں: ایک الموطأ واوکے ساتھ، اور دوسرا المؤطأ ہمزہ کے ساتھ، جیسا کہ قرآن کریم میں ﴿وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْؕ﴾ میں وُقِّـتَت بھی جائز ہے۔ [35] اور دونوں کے مفہوم میں فرق کوئی فرق نہیں۔
سبب تالیف
موطا کے سبب تالیف کے بیان میں ایک سے زائد روایات ہیں: ایک یہ ہے کہ امام صاحب نے یہ کتاب عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کے کہنے پر تصنیف فرمائی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق یہ گزارش خلیفہ مہدی نے کی تھی۔ [36] ایک تیسری روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام صاحب نے عبد العزیز ابن الماجشون کی موطأ دیکھی، تو اُنہیں احساس ہوا کہ اس موضوع پر مزید بہترین کتاب ہونی چاہیے، اور پھر آپ نے موطا کی تصنیف کا آغاز کیا۔ [37]
ان تینوں روایات میں جمع و تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ پہلے ابو جعفر المنصور نے امام صاحب سے یہ گزارش کی ہوگی، لیکن امام صاحب سوچ وفکر میں ہوں گے۔ پھر بعد میں خلیفہ مہدی نے بھی یہی طلب دہرائی تو امام صاحب کا عزم مزید پختہ ہوا، اور پھر جب آپ نے اس وقت کی تصنیفات دیکھیں تو ان میں سب سے بہترین موطا ابن الماجشون محسوس ہوئی، لیکن ساتھ اس میں موجود بعض کوتاہیوں کو دیکھ کر ایک جامع اور آسان موطا تالیف کرنے کا آغاز کردیا۔ و اللّٰہ اعلم!
موطا کو دستور بنانے کی پیشکش
امام صاحب کےسوانح نگاروں نے یہ بات بھی نقل کی ہے کہ ابو جعفر المنصور نے امام صاحب کو پیش کش کی تھی کہ آپ اجازت دیں، تو موطا کو بطور دستور اور آئین کےنافذ کر دیا جائے، لیکن امام صاحب نے رضامندی ظاہر نہ کی۔ ابن سعد اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
” مالک بیان کرتے ہیں کہ حج کے موقعہ پر ابو جعفر المنصور نے مجھے بلوایا اور کہا: میرا عزم ہے کہ آپ کی کتاب یعنی موطا کے نسخے تیار کروا کر تمام اسلامی علاقوں میں بھیجوں اور اسے نافذ کرنے کا حکم جاری کردوں، کیونکہ اصل علم تو مدینہ میں ہے۔ میں نے عرض کی: امیر المؤمنین یہ کام نہ کیجیے، کیونکہ اقوال، احادیث و روایات کا علم تمام لوگوں میں منتشر ہوچکا ہے، اور ہر ایک نے اپنے علم وفہم کے مطابق موقف بنالیا ہے، ایسی صورت حال میں لوگوں کا اپنے ہاں رائج الوقت طریقے سے دستبردار ہونا بہت مشکل ہوگا، لہٰذا ہر شہر کو اپنے علمی وفقہی اختیارات کے مطابق ہی رہنے دیا جائے۔ ابو جعفر نے کہا: بخدا اگرآپ اجازت دیتے تو میں اسے نافذ کرکے ہی رہتا۔ “
امام صاحب کے الفاظ یوں ہیں:
يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! لاَ تَفْعَلْ هَذَا فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ سَبَقَتْ إِلَيْهِمْ أَقَاوِيلُ وَسَمَعُوا أَحَادِيثَ وَرَوَوْا رِوَايَاتٍ وَأَخَذَ كُلُّ قَوْمٍ بِمَا سَبَقَ إِلَيْهِمْ وَعَلِمُوا بِهِ وَدَانُوا بِهِ مِنِ اخْتِلاَفِ النَّاسِ وَغَيْرِهِمْ وَإِنَّ رَدَّهُمْ عَمَّا قَدِ اعْتَقَدُوهُ شَدِيدٌ فَدَعِ النَّاسَ وَمَا هُمْ عَلَيْهِ وَمَا اخْتَارَ كُلُّ أَهْلِ بَلَدٍ مِنْهُمْ لأَنْفُسِهِمْ . [38]
یہی بات الفاظ کے ذرا اختلاف سے امام کے تلامذہ ابو معصب الزہری، الحارث بن مسکین اور محمد بن مسلمۃ القعنبی وغیرہ سے بھی مروی ہے۔ [39] الغرض امام صاحب اپنی کتاب کو بطور قانون اور دستور نافذ کرنے پر راضی نہ ہوئے، كيونكہ وحی کے علاوہ کوئی چیز بطور شریعت نافذ نہیں كی جاسکتی ہے، اور امام صاحب خود مسجد نبوی میں لوگوں کو قبر نبوی کی طرف اشارہ کر کرکے یہی منہج سکھاتے رہے کہ
"كُلُّ أَحَدٍ يُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِه، وَيُتْرَكُ، إِلاَّ صَاحِبَ هَذَا القَبْرِ ﷺ." [40]
”اس صاحبِ قبر ﷺکے علاوہ ہر ایک کی بات میں اخذ و رد ّ کا احتمال باقی رہتا ہے۔ “
موضوعاتِ کتاب
اجمالی طور پر تو کتاب کا موضوع احادیث رسول ﷺو آثارِ صحابہ کا بیان ہے، البتہ تفصیلی طور پر مضامین موطا کو آٹھ قسموں میں بیان کیا جاسکتا ہے: [41]
پہلی قسم: مرفوع و متصل احادیث دوسری قسم: مرسل احادیث
تیسری قسم: منقطع احادیث چوتھی قسم: مرفوع حکمی
پانچویں قسم: بلاغیات چھٹی قسم: اقوالِ صحابہ و تابعین
ساتویں قسم: امام مالک کا تفقہ و اجتہاد آٹھویں قسم: لغوی وتفسیری افادات
کتاب کا طریقۂ تالیف اور مصنف کی شرط
امام صاحب نے کتاب کو فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔ صرف احادیثِ صحیحہ پر اکتفا کرنے کی بجائے اقوالِ صحابہ وتابعین بھی ذکر کیے ہیں۔ مسند کے ساتھ ساتھ مرسل حدیث سے بھی احتجاج کرتے ہیں، اسی طرح سیدنا عمر فاروقؓ اور عبد اللّٰہ بن عمرؓ [42] سے وارد مسائل سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ اہل مدینہ صحابہ وتابعین کے فتاویٰ سے زیادہ مانوسیت رکھتے ہیں بالخصوص اگر کسی مسئلہ میں فقہاے سبعہ کا اتفاق ہوجائے۔ [43]
امام صاحب نے احادیث نبویہ پر اکتفا کی کرنے کی بجائے اقوال صحابہ وتابعین کو اس لیے ذکر کیا، کیونکہ یہ اسلامی فقہی مصادر میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے بغیر تفقہ فی الحدیث ممکن نہیں، امام کامقصد صرف نصوصِ شریعت کی تدوین نہ تھا، بلکہ آپ نصوص سے مسائل کے استنباط و استدلال کے لیے ایک جامع طرز اُسلوب متعارف کروانا چاہتے تھے۔
ابن العربی رقم طراز ہیں: قَصَدَ في كتابِه هذا تبيينَ أصولِ الفقهِ وفروعِهِ. [44]
” امام کا اس کتاب کی تالیف سے مقصد فقہ کے اصول وفروع کا بیان تھا۔ “
امام ابن عاشور فرماتے ہیں:
”امام صاحب کا مقصد علِم شریعت کی وضاحت تھی، اور علم شریعت صرف احادیث نبویہ میں ہی منحصر نہیں، بلکہ صحابہ کرام جنہوں نے نبی کریم ﷺکے معاملات و عادات کو براہ راست ملاحظہ کیا، ان کے فیصلے اور فتاوی بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ “ [45]
احادیثِ موطا کا درجہ
جیسا کہ گزر چکا کہ احادیثِ موطا کی مختلف آٹھ اقسام ہیں، تو ہر قسم کا درجہ بھی الگ ہے، لہٰذا پہلی قسم یعنی مرفوع و متصل احادیث سب کی سب صحیح ہیں، اور علما کا اس پر اتفاق ہے، بلکہ یہ تمام احادیث صحیحین بلکہ کتبِ ستہ میں بھی موجود ہیں۔ [46]
بلکہ امام بخاری کے طریقہ تالیف میں یہ بات مذکور ہے کہ انہیں اگر امام مالک کی روایت سے کوئی حدیث مل رہی ہو، تو وہ اسی کو ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، چاہے امام مالک کی روایت کے لیے انہیں نَازِل یعنی لمبی سند ہی کیوں نہ اختیار کرنا پڑے۔ ابن عاشور فرماتے ہیں:
”امام بخاری تکلفاً مالک کی روایت کو لیتے ہیں، چاہے ان کو بعید ترین سند کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ “ [47]
رہی بات موطا میں موجود مُرسَل احادیث کی، تو اس کے متعلق موطا کے رازدان و ماہر ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ موطا کی مراسیل دیگر متصل اسانید سے بھی ثابت ہیں، یہی وجہ ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان فرمایا کرتے تھے: ”مالک کی مراسیل مجھے سب سے عزیز ہیں، کیونکہ ان سے صحیح مراسیل کسی کی نہیں [48] “، البتہ درج ذیل حدیث: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ الْكِنَانِيِّ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى النَّاسَ فِي قَبَائِلِهِمْ يَدْعُو لَهُمْ وَأَنَّهُ تَرَكَ قَبِيلَةً مِنَ الْقَبَائِلِ قَالَ وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ وَجَدُوا فِي بَرْذَعَةِ رَجُلٍ مِنْهُمْ عِقْدَ جَزْعٍ غُلُولًا فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ عَلَيْهِمْ كَمَا يُكَبِّرُ عَلَى الْمَيِّتِ کی ابن عبد البر کوکہیں مسند نہیں ملی۔ [49]
رہی منقطع احاديث تو اس حوالے سے قاضی عیاض کا کہنا ہے کہ ”ابن مسعود کے اقوال امام صاحب نے عبد اللّٰہ بن ادریس اَودی کے واسطہ سے روایت کیے ہیں، اور بقیہ اصحاب کے آثار عبد الرحمٰن بن مہدی کے توسط سے۔ [50] “ گویا قاضی عیاض یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ موطأ میں منقطع احادیث کی اسانید بھی معروف ہیں، امام صاحب نے شاید شہرت کی بنا پر انہیں ذکر نہیں کیا۔ و اللّٰہ اعلم!
موطا میں بلاغات کی تعداد 239 ہے [51]، حافظ ابن عبد البر نے ان تمام کی اسانید ذکر کردی ہیں، البتہ چار کی اسانید انہیں نہیں مل سکیں:
1: " إني لا أنسى ولكن أنسى لأسن." [52]
2: "إذا نشأت بحرية ثم تشاءمت فتلك عين غديقة." [53]
3: "أن رسول الله ﷺ أري أعمار الناس قبله فكأنه تقاصر أعمار أمته، أن لا يبلغوا من العمل مثل الذي بلغه غيرهم في طول العمر فأعطاه الله ليلة القدر خيرًا من ألف شهر." [54]
4: أن معاذ بن جبل قال: آخر ما أوصاني به رسول الله ﷺ: و قد وضعت رجلي في الغرز أن قال: «حسِّن خلقك للناس» ." [55]
بعد والے علما کو ان چار احادیث کی اسانید بھی مل گئی تھیں، حافظ ابن صلاح کا اس حوالے سے ایک مستقل رسالہ ہے جس میں یہ تفصیلات موجود ہیں۔ ان چار احادیث کے متعلق ابن صلاح کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ دو اور تین نمبر احادیث کی اسانید ضعیف ہیں، جبکہ پہلی حدیث صحیح اور چوتھی حدیث حسن درجے کی ہے۔ [56]
موطا کی قدر ومنزلت
کتبِ حدیث میں موطأ اعلیٰ منزلت پر فائز ہے، بالکل ابتدائی مصادر حدیث میں سےہے۔ فقہ و حدیث کی جامع پہلی کتاب ہے، امام شافعی فرمایا کرتے تھے:
ما في الأرض كتاب في العلم أكثر صوابًا من موطأ مالك. [57]
”روے زمین پر موطا سے صحیح ترین کتاب موجود نہیں ہے۔ “
امام ابن العربی فرماتے ہیں:
”بخاری دوسرے نمبر پر جبکہ موطا پہلے نمبر پر ہے، بعد والی تمام کتبِ حدیث کی بنیاد موطا ہی ہے۔ “ [58]
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ موطا کو صحیحین پر ترجیح اس بنیاد پر ہے کہ موطا اَسبق واَقدم ہے، اور متقدم ہونا بذاتِ خود ایک فضیلت ہے، کیونکہ بعد والے سب اوّلین کے خوشہ چین ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کی کتبِ حدیث میں کوئی ایک ایسی نہ ہوگی جس میں امام مالک اور موطأ کی روایات موجود نہ ہوں، اس اعتبار سے موطأ کو افضل کہا جاسکتا ہے، ورنہ عمومی اعتبار سے یہی بات درست ہےکہ
”صحیح بخاری ومسلم قرآن کے بعد افضل ترین کتابیں ہیں، جیسا کہ اس پر امت کا اجماع ہے۔ “ [59]
ذہبی فرماتے ہیں: ”موطا کی لوگوں کے ہاں شان، اور دلوں میں جو ہیبت و وقار ہے، یہ اسی کا خاصہ ہے۔ “ [60]
حجۃ الہند شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کتبِ فقہ میں موطا امام مالک کے پائے کی کوئی کتاب نہیں ہے، کیونکہ کتاب کی فضلیت کے کچھ معیارات ہیں، مثلاً اس کا مصنف عظیم شخصیت ہو، یاکتاب میں صحت کا التزام ہو، یا اس کی احادیث مشہور ہوں، یا عامۃ المسلمین کے ہاں اسے قبولِ عام حاصل ہو، یا اس میں اہم مقاصد دین کا استیعاب ہو وغیرہ، یہ جتنی خوبیاں ہیں، موطا میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ “ [61]
صحیح بات یہ ہے کہ موطأ میں چونکہ صرف صحیح احادیث پر اکتفا نہیں کیا گیا، اس لیے صحیحین کو اس پر فوقیت حاصل ہے، یہی وجہ ہے علامہ کتانی نے صحیحین کے بعد موطا کو تمام کتب ِحدیث پر فوقیت دی ہے۔ [62]
موطا میں امام صاحب کے شیوخ
امام ذہبی اور امام غافقی نے موطا میں امام صاحب کے شیوخ کی فہرست مرتب کی اور ان سے مروی روایات کی تعداد ذکر کی ہے۔ ذہبی نے 94 رواۃ کا ذکر کیا ہے [63] جبکہ غافقی نے 92 بیان کیے ہیں۔ [64] غافقی کی فہرست میں 7 ایسے نام ہیں جنہیں ذہبی نے ذکر نہیں کیا، اور ذہبی نے دس ایسے نام ذکر کیے ہیں، جو غافقی کی فہرست میں نہیں ہیں۔ اس طرح یہ کل ملا کر تقریباً 102 شیو خ بن جاتے ہیں، جن سے امام مالک نے موطا میں روایات بیان کی ہیں۔
روایاتِ موطا
موطا کی تالیف کے زمانے سے ہی اہل علم نے اس کی روایت و تحدیث کا اہتمام کیا، امام صاحب کے تلامذہ ایک دوسرے سے بڑھ کر موطأ کی روایت و عنایت کرتے رہے۔ حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں:
”احادیث موطا، فقہی مسائل و فتاوی کی روایت کرنے والوں کو امام دارقطنی نے ایک تصنیف میں جمع کیا ہے، جن کی تعداد تقریبا ًہزار کے قریب ہے۔ “ [65]
راویوں کی کثرت کے سبب موطا کے نسخوں او روایتوں میں اختلاف بھی موجود ہے، قاضی عیاض مالکی (م544ھ) نے اس حوالے سے کافی تحقیق کی ہے، اور ان کے دور یعنی چھٹی صدی ہجری میں موطأ کے تیس کے قریب نسخے شمار کیے جاتے تھے، جن میں سے بیس خود قاضی عیاض کی دسترس میں تھے۔ [66]
روایاتِ موطأ میں سب سے مشہور روایت یحیی بن یحیی اللیثی کی ہے، جب مطلقا موطأ کہا جائے تو یہی روایت مراد ہوتی ہے، جبکہ دیگر روایات ذکر کرتے ہوئے ساتھ راویوں کی صراحت کردی جاتی ہے۔
روایاتِ موطا پر مستقل تصانیف بھی ہیں، أنوار المسالك إلى روایات موطأ مالك میں 16 روایات کا تذکرہ ہے، اسی طرح شیخ سلیم بن عید ہلالی کی تحقیق سے شائع شدہ موطا میں دو روایات کا مزید اضافہ ہے، اس طرح یہ کل اٹھارہ روایت بن جاتی ہیں۔ ذیل میں ایک جدول کی شکل میں ان روایات کو ذکر کیا جاتا ہے، ساتھ نصوص کی تعداد اور مطبوع و مخطوط کی معلومات کا بھی حسبِ استطاعت اضافہ کردیا گیا ہے:
موطا کی مختلف روایات میں احادیث کی تعداد میں کافی فرق کی وجہ یہ ہے کہ امام صاحب سے ان لوگوں نے مختلف اوقات میں کتاب سنی، اور امام صاحب اس میں مسلسل حک و اضافہ کرتے رہتے تھے۔ [67]
شروحاتِ موطا
شروع سے لیکر اب تک علما مختلف انداز سے موطا کی خدمت سرانجام دیتے رہے ہیں: کسی نے شرح کی، کسی نے رجالِ موطا کے حالاتِ زندگی لکھے، کسی نے مراسیل و منقطعات کی اسانید کا اہتمام کیا، کسی نے اطراف الموطا، وترتیب المسانید پر کام کیا۔ قاضی عیاض فرماتے ہیں:
”کتب حدیث میں جو اہتمام موطا کے ساتھ رہا ہے، وہ کسی اور کتاب کو نصیب نہیں ہوا۔ موافق و مخالف سب اس کی قدر ومنزلت، روایت کرنے، اور احادیث کو ماننے پر متفق ہیں۔ “ [68]
بعض محققین نے شروحاتِ موطا کی تعداد 130 بیان کی [69]ہے، چند اہم کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:
تفسير غريب الموطأ لمحمد بن عبدالسلام (سحنون) القيرواني (ت 265هـ)
مسند الموطأ لأبي القاسم الجوهري الغافقي (ت 381 هـ)
التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد لابن عبد البر (ت 463هـ)
الاستذكار للحافظ ابن عبد البر (ت 463هـ)
المنتقى لأبي الوليد الباجي (ت474هـ)
الإيماء في أطراف الموطأ لأحمد بن طاهر الداني (ت520هـ)
القبس في شرح موطأ مالك بن أنس لابن العربي (ت 543هـ)
الدرة الوسطى في مشكل الموطأ لمحمد بن خلف القرطبي (ت 557هـ)
المشروع المهيأ في ضبط مشكل رجال الموطأ لابن مخلوف التلمساني (ت 868 هـ)
تنوير الحوالك للسيوطي (ت 911هـ)
أنوار كواكب نهج السالك بشرح موطأ مالك للزرقاني (ت 1122هـ)
إرشاد السالك لشرح مقفل موطأ مالك لعلي بن أحمد الفأسي (ت 1143هـ)
التعليق الممجد على موطأ محمد لعبد الحي اللكنوي (ت 1304هـ)
أوجز المسالك بشرح موطأ مالك لزكريا الكاندهلوي (ت 1348هـ)
ضوء السالك لمحمد رفيق الأثري حفظه الله
طبعاتِ کتاب
موطا کی کئی طبعات (ایڈیشن)ہیں، چند اہم کا تذکرہ ذیل میں موجود ہے:
الموطأ، بترتيب الشيخ فواد عبد الباقي، طبعة مطبعة البابي الحلبي وغيره.
الموطأ، بتحقيق الشيخ الأعظمي، موسسة زايد، أبو ظبي، الإمارات.
الموطأ برواية الليثي، بتحقيق الشيخ بشار عواد، طبعة مؤسسة الرسالة، بيروت.
الموطأ برواياتها الثمانية (الليثي، والقعنبي، وأبي مصعب الزهري، والحدثاني، وابن بكير، وابن القاسم، وابن زياد، ومحمد بن الحسن) بتحقيق سليم بن عيد الهلالي، طبعة مكتبة الفرقان بالأمارات.
الموطأ برواية ابن القاسم، بتحقيق و تخريج و ترجمة الشيخ زبير علي زئي، المكتبة الإسلامية، لاهور، باكستان.
الموطأ برواية الشيباني، بتحقيق الشيخ عبدالوهاب عبد اللطيف، المكتبة العلمية.
الموطأ برواية القعنبي، بتحقيق عبدالمجيد التركي، دار الغرب الإسلامي، بيروت
حوالہ جات:
[31] امام محمد نے امام مالک سے تقریباً تین سال تک علم حاصل کیا، اور ان کے بقول انہوں نے امام صاحب سے 700 سے زائد احادیث سماعت کیں۔ (سیر اعلام النبلاء: 8؍75)، موطا بروایۃ محمد مطبوعہ میں مرويات کی تعداد 1008 ہے لیکن اس میں کافی ساری روایات امام محمد کی ’زیادات ‘ہیں۔ جیساکہ حدیث نمبر 13 تا 34 میں سے ایک بھی امام مالک کے طریق سے نہیں ہے۔ کتبِ حدیث میں یہ منہج عام ہے کہ بعض دفعہ راوی کتاب اپنے شیخ کی روایات کے ساتھ ساتھ اپنی سند سے بھی احادیث درج کردیتے ہیں۔ جیساکہ مسند احمد میں امام کے صاحبزادے عبد اللّٰہ کی زیادات مشہور ہیں۔ موطا کی مختلف روایات میں موجود مرویات کے تقابل کے لیے اس مضمون کا ’روایاتِ موطا‘ والا حصہ ملاحظہ کریں۔
[32] لسان العرب لابن منظور: 1/195
[33] ترتيب المدارك: 2/73
[34] تنوير الحوالك للسيوطي: 1/7
[35] شذا العرف في فن الصرف لأحمد الحملاوي: 125
[36] ترتيب المدارك: 2/71–73
[37] التمهيد: 1/86، ترتيب المدارك: 2/76
[38] الطبقات لابن سعد: 9/441
[39] ترتیب المدارك: 1/60، سیر أعلام النبلاء: 8/79
[40] سير أعلام النبلاء: 8/ 93
[41] كشف المغطى لابن عاشور: 29، والمدخل إلى موطأ مالك بن أنس: ص91–93
[42] امام صاحب فرماتے ہیں، عمر فاروقؓ امامت کے درجہ پر فائز تھے، ان کے بعد زید بن ثابت ؓہوئے، پھر عبد اللّٰہ بن عمر ؓ۔ امام صاحب کے الفاظ یوں ہیں: "كان إمام الناس عندنا بعد عمر بن الخطاب زيد بن ثابت - يعني بالمدينة -. قال: وكان إمام الناس بعده عندنا عبد الله بن عمر. (الإستيعاب في معرفة الأصحاب: 1/160)
[43] كشف المغطى لابن عاشور: ص22- 28، والمدخل إلى موطأ مالك بن أنس: ص79-101
[44] المسالك في شرح موطأ مالك لابن العربي: 1/ 436
[45] كشفى المغطى: ص40
[46] كشفى المغطى: ص29
[47] كشفى المغطى: ص30
[48] سنن الترمذي: 5/754
[49] التمهيد: 23/ 429
[50] ترتيب المدارك: 2/75
[51] یہ تعداد شیخ سلیم ہلالی کی تحقیق سے شائع شده موطا میں دی گئی فہرست سے شمار کی گئی ہے۔
[52] الموطأ: 2/138 (رقم331)
[53] الموطأ: 2/269 (رقم 654)
[54] الموطأ: 3/462 (رقم 1145)
[55] الموطأ: 5/1327 (3350)
[56] وصل بلاغات مؤطا لابن الصلاح: ص7
[57] سير أعلام النبلاء: 8 / 111
[58] عارضة الأحوذى لابن العربي: 1/5
[59] شرح النووي على مسلم: 1/ 14
[60] سير أعلام النبلاء: 18/202
[61] المسوى لولي الله الدهلوي: 17
[62] الرسالة المستطرفة لمحمد بن جعفر الكتاني: 13
[63] سير أعلام النبلاء: 7/150–152
[64] الموطآت لنذير حمدان: 204–208
[65] الانتقاء لابن عبد البر: 15، ط. العلمية
[66] ترتیب المدارك: 2/88، 89
[67] ترتیب المدارك: 1/60
[68] ترتیب المدارك: 2/80
[69] تفسیر غریب المؤطا لابن حبیب الأندلسي، مقدمة التحقیق: ص 63تا 150