سنن ابن ماجہ:
امام ابن ماجہ کے تمام سوانح نگاروں نے فن تفسیر، حدیث اور تارخ میں ان کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا ہے، نواب صدیق حسن رحمہ اللہ نے فتح البیان کے مقدمہ میں طبقہء صحابہ وتابعین کے قدیم مفسرین کا ذکر کیا ہے، پھر ان اہل تصنیف مفسرین کا جن کی تفسیروں میں صحابہ و تابعین کے اقوال موجود ہیں اور اس کے بعد کے طبقہ میں عبد الرزاق، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم وغیرہ کے ساتھ ابن ماجہ کا بھی نام موجود ہے۔
حافظ ابن طاہر مقدسی نے شروط الائمۃ الستہ (ص۱۹)میں بصراحت لکھا ہے کہ قزوین میں میں نے ابن ماجہ کی ایک کتاب دیکھی جس میں موصوف نے عہد صحابہ سے اپنے دور تک کے رجال اور متعلقہ شہروں کا ذکر کیا تھا، اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ ابن خلکان مذکورہ کتاب کے وصف میں ''ملیح'' اور ابن کثیر نے '' کامل'' کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
تفسیر و تاریخ کے موضوع پر ابن ماجہ کی خدمات مسلم ہیں،لیکن ان کا وہ کارنامہ جس نے انہیںزمرہ محدثین میں ممتاز بنایا ان کی کتاب '' السنن'' ہے، کتب حدیث میں جن چھ کتابوں کو ''اصول ستہ'' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور مدارس میں ان کی تدریس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ان میں سنن ابن ماجہ بھی ہے، یہ بہت زیادہ عزت اور غایت درجہ شرف کی بات ہے کہ علم وبصیرت اور صلاح وتقوی کے درجہ علیا پر فائز محدثین ان کی کتاب کو '' اصول و امہات''سے شمار کریں۔
سنن کے بارے میں مشاہیرمحدثین کا تاثر عمدہ ہے، امام رافعی نے لکھا ہے کہ حفاظ حدیث ابن ماجہ کی سنن کو صحیحین،سنن ابی داود اور سنن نسائی کے ساتھ رکھتے ہیں، امام ذہبی کے بیان کے مطابق ابن ماجہ نے اپنی کتاب کو امام ابوزرعہ رازی کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کا درجہ اکثر جوامع سے برتر بتایا، صرف تیس حدیثوں کی اسناد کے سلسلے میں ضعف وغیرہ کی بات کہی،امام ذہبی نے تذکرہ (۲۳۶۲) میں ابن ماجہ کی اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر اس میں کمزور حدیثیں نہ ہو تیں، جو زیادہ نہیں ہیں، تو یہ ایک اچھی کتاب ہے، حافظ ابن کثیر نے الباعث الحثیث میں اسے ایک مفید اورفقہی لحاظ سے '' قوی تبویب'' والی کتاب قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر نے تہذیب میں سنن کو ضعیف حدیثوں کی طرف اشارہ کے باوجود جامع اور عمدہ ابواب والی کتاب بتا یا ہے۔
اشخاص کے مرتبہ کے تعین میں جس طرح اصحاب نظر کے درمیان اختلاف ہوتا ہے، اسی طرح کتابوں کی درجہ بندی میں بھی آراء مختلف ہوتی ہیں، لیکن یہ معاملہ بڑی حد تک فنی ہے، عوام او ر متوسط طبقہ کے لوگوں کے پیش نظر افادہ واستفادہ کا پہلو ہوتا ہے، اور ان کے لئے یہی اہم ہے،امام ابن ماجہ کی السنن کو اصول ستہ میں شامل کرنے کے سلسلہ میں قدرے اختلاف ہے، بعض لوگوں نے امام مالک کی موطأ کو اور بعض نے سنن دارمی کو '' چھٹی کتاب '' کا درجہ دیا ہے، لیکن بعد کے ادوار میں علماء نے سنن ابن ماجہ ہی کو چھٹی کتاب کا درجہ دیا ہے۔
اما م ابن ماجہ کی '' السنن'' کا جو مختصر تعارف سابقہ سطور میں پیش کیا گیا، اس سے اہل علم کی نظر میں اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے، اس کتاب کی اہمیت وافادیت کا ایک اور ثبوت اس کی شرح و تعلیق پر علمائے حدیث کی توجہ ہے، تذکرہ نگاروں نے اس کتاب کی سولہ شرحوں کا ذکر کیا ہے، جن میں سے بعض پانچ جلدوں میں اور بعض آٹھ جلدوں میں ہیں، ہم بنظر اختصار صرف ان شروح کے نام ذکر کردیتے ہیں: الإ علام بسنة عليه السلام، ما تمس اليه الحاجة الى سنن ابن ماجه، الديباجة مصباح الزجاجة على سنن ابن ماجه، انجاح، الحاجة في شرح ابن ماجه، مفتاح الحاجة بشرح سنن ابن ماجة، ما تدعواليه الحاجة على سنن ابن ماجة، رفع العجاجة عن سنن ابن ماجة، مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه على الكتب الخمسة، المجرد في أسماء رجال سنن ابن ماجة، حاشية الكنكو هي، تعليق سبط ابن العجمى، شرح ابن ماجه، أنجاز الحاجة بشرح سنن ابن ماجة.
ان شارحین کے سنین وفات پرنظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کاتعلق آٹھویں صدی ہجری سے پندرہویں صدی ہجری کے آغاز تک سے ہے، تقریباً آٹھ صدیوں میں علماء حدیث نے اس کتاب کی اس طرح کی خدمت کی، تیسری صدی سے جو کتاب کازمانہ تالیف ہے، ساتویں صدی تک کا حال معلوم نہیں، لیکن یہ یقین ہے کہ امام ابن ماجہ نے اپنی کتاب کا درس طلبہ کے جم غفیر کو دیا ہے، جیسا کہ امام کے تذکرہ میں موجود ہے، کسی کتاب کی اس درجہ مقبولیت یقینا اس کی فنی عظمت کا ثبوت ہے، محدثین کے تمام کاموں کو اسی طرح مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔