جامع بخاری کے چند ایک فضائل:
پہلی فضیلت:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«صنفت الجامع من ستمائة الف حديث فى ست عشرة سنة وجعلته حجة فيما بيني و بين الله .»
کہ میں نے جامع صحیح کو چھ لاکھ احادیث سے سولہ سال کی مدت میں تصنیف کیا ہے اور اسے اپنے اور اللہ کے درمیان حجت بنایا ہے۔
تو یہ کتاب امام بخاری رحمہ اللہ ار اللہ کے درمیان حجت ہے کہ اے اللہ! میں نے تیرے دین کے لیے یہ کام کیا ہے۔ تو یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ وہ ایسی کتاب تصنیف کریں جو حجت کا کام دے۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری کی کتاب:
مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب نے ”مقدس رسول“ کے نام سے ایک کتاب لکھی کیونکہ ایک ہندو نے رنگیلا رسول کے نام سے کتاب لکھی تھی، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کیے تھے، تو مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے نے رنگیلا رسول کے جواب میں کتاب ”مقدس رسول“ لکھی۔ مولانا اعزاز علی فرماتے ہیں کہ مولانا ثناء اللہ صاحب کی نجات کے لیے ان کی باقی کتب کو نہ بھی دیکھا جائے تو صرف یہی کتاب مقدس رسول کافی ہے۔ اسی طرح ان کی کتاب ”حق پرکاش“ جو ستیارتھ پرکاش“ کے جواب میں ہے، اس میں مصنف نے اسلام پر اعتراضات کئے ہیں جن کا مولانا ثناء اللہ صاحب نے جواب دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی جامع اللہ اور ان کے درمیان حجت ہو گئی۔ لیکن یہ امت مسلمہ پر بھی بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے صحیح صحیح احادیث ایک جگہ جمع کر دیں۔
دوسری فضیلت:
عمر بن محمد بجیری فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا:
«يقول صنفت كتابي الجامع فى المسجد الحرام وما ادخلت فيه حديثاً حتي استخرت الله تعالىٰ وصليت ركعتين وتيقنت صحته .»
کہ آپ فرما رہے تھے: میں نے اپنی کتاب جامع کو مسجد حرام میں تصنیف کیا اور میں نے اس میں ہر حدیث داخل کرنے سے استخارہ کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور صحت کا یقین کیا۔
محمد بن یوسف فربری فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
«ماكتبت فى كتاب الصحيح حديثاً الا اغتسلت قبل ذلك وصليت ركعتين .»
کہ میں نے صحیح بخاری میں حدیث درج کرنے سے پہلے غسل کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔
تو یہ بھی ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ یہ کتاب مسجد حرام میں تصنیف کی گئی۔
اعتراض:
یہ بیان ہو چکا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے اس کتاب کو سولہ سال میں تصنیف کیا ہے اور اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پوری کتاب مسجد حرام میں تصنیف کی گئی۔ حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ سولہ سال مکہ میں نہیں رہے، اس لیے ان کی یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے؟
جواب:
تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تصنیف کا آغاز، ترتیب اور تراجم ابواب یہ سب کچھ مسجد حرام میں ہی تصنیف کیا۔ پھر مختلف تراجم کے تحت مختلف احادیث کے لیے پھرتے رہے۔ اس طرح ان تراجم کے تحت احادیث کو درج کر دیا۔
تیسری فضیلت:
حافظ ابن عدی نے کئی ایک مشائخ سے نقل کیا ہے:
«ان البخاري حول تراجم جامعه بين قبر النبى صلى الله عليه وسلم ومنبره .»
کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور منبر کے درمیان تراجم کی تحویل کی۔
یہ مقام بہت افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ» [/font] (صحیح البخاری: 6588)
ایسی جگہ امام بخاری رحمہ اللہ ابواب کی تحویل کر رہے ہیں۔
اعتراض:
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول گزر چکا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو مسجد حرام میں اور سولہ سال کی مدت میں تصنیف کیا، اور اب یہ بیان کر رہے ہیں کہ منبر نبوی اور قبر نبوی کے درمیانی مقام میں تصنیف کیا ہے۔ یہ دونوں بیان کیسے درست ہو سکتے ہیں؟
جواب:
اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اصل تصنیف مسجد حرام میں شروع کی اور یہ جو فرما رہے ہیں کہ میں نے ابواب کی تحویل روضۃ من ریاض الجنۃ میں کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسودہ سے مبیضہ میں تحویل کا کام مسجد نبوی میں کیا ہے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کے اقوال میں کوئی تعارض نہیں۔
چوتھی فضیلت:
امام ابواحمد حاکم فرماتے ہیں:
«رحم الله محمد بن اسماعيل الامام فانه الف الاصول و بين للناس وكل من عمل بعده فانما اخذه من كتابه كمسلم فرق اكثر كتابه وتجلد فيه حق الجلادة حيث لم ينسبه اليه .»
کہ اللہ تعالیٰ امام بخاری رحمہ اللہ پر رحم فرمائے۔ انہوں نے جامع بخاری کو تصنیف کیا، اصول جمع کیے اور لوگوں کے لیے احادیث کو بیان کیا۔ ان کے بعد جتنے بھی مصنفین آئے، انہوں نے اسی کتاب سے مواد لیا۔ جیسے امام مسلم ہیں انہوں نے بخاری کا اکثر حصہ اپنی کتاب کے اندر درج کیا اور جسارت سے کام لیتے ہوئے اس کو آپ کی طرف منسو ب بھی نہیں کیا کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی احادیث ہیں۔
ابوالحسن دارقطنی فرماتے ہیں:
«انما اخذ مسلم كتاب البخاري فعمل فيه مستخرجا وزاد فيه احاديث . »
کہ امام مسلم نے کتاب بخاری کو سامنے رکھا اور ان کی احادیث کو اپنی سند سے بیان کیا اور کچھ زائد احادیث بیان کیں۔
تو یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ بعد میں آنے والے اس کو ماخذ سمجھتے ہیں اور مواد حاصل کرتے ہیں۔
پانچویں فضیلت:
حافظ ابونصر وائلی سجزی فرماتے ہیں:
«اجمع اهل العلم الفقهاء وغيره م على ان رجلا لو حلف بالطلاق على ان جميع ما فى البخاري مما روي عن النبى صلى الله عليه وسلم قد صح عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاله لا شك فيه انه لا يحنث والمرءة بحالها فى حبالته .»
کہ تمام علماء فقہاء وغیرہ م کا اس بات پر اجماع ہے کہ کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ بخاری کی وہ تمام مرفوع روایات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں، وہ صحیح ہیں، ایسانہ ہو تو میری بیوی کو طلاق ہو تو یہ طلاق واقع نہیں ہو گی، وہ عورت اس کی بیوی رہے گی۔
گویا صحیح بخاری پر قسم دی جا سکتی ہے۔
چھٹی فضیلت:
ابوزید مروزی فرماتے ہیں:
«كنت نائما بين الركن والمقام فرأيت النبى صلى الله عليه وسلم فى المنام، فقال لي: يا ابا زيد! الي متي تدرس كتاب الشافعي ولا تدرس كتابي؟ فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! وما كتابك؟ قال: جامع محمد بن اسماعيل .»
کہ میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان سویا ہوا تھا تو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ابوزید! تو کب شافعی کی کتاب پڑھتا رہے گا اور میری کتاب کو نہیں پڑھتانہیں؟ تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی کتاب کون سی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: محمد بن اسماعیل کی جامع صحیح میری کتاب ہے۔
تو اس واقعہ سے بخاری کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہو رہی ہے کہ ابوزید مروزی کے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اپنی کتاب قرار دے رہے ہیں۔
مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
ص: 163 تا 168