صحیح بخاری کا تعارف از حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ:
کتاب بخاری کا نام:
”الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ۔“
موضوع:
کتاب بخاری کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع صحیح اور مسند احادیث کو جمع کرنا ہے اور امام بخاری کے فرمان سے بھی ظاہر ہوتا ہے: ”لم اخرج فی ہذا الکتاب الا صحیحا۔“ کہ میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح احادیث کو درج کیا ہے۔
امام بخاری مزید فرماتےہیں: ”خرجت الصحیح من ستمائۃ الف حدیث۔“ کہ میں نے صحیح بخاری چھ لاکھ احادیث سے منتخب کی ہے۔
ویسے بخاری میں مسند احادیث کے علاوہ بھی کئی امور کافی تعداد میں موجود ہیں۔ مثلاً: مسائل فقہ، عقائد، مسائل قرآن، فتاویٰ، لغوی فوائد، اصول، فنی فوائد اور دوسرے فوائد موجود ہیں۔ لیکن یہ چیزیں موضوع کتاب میں شامل نہیں۔ موضوع کتاب میں صرف صحیح اور مسند احادیث شامل ہیں۔
شبہ: منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”میں نے چھ لاکھ احادیث سے صحیح کو منتخب کیا ہے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی احادیث صحیح نہیں اور قابل اعتبار نہیں۔ اگر قابل اعتبار ہوتیں تو امام بخاری ان کو کیوں چھوڑتے؟
جواب نمبر1:
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے چھ لاکھ احادیث سے انتخاب کیا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ چھ لاکھ احادیث کی ایک سند تھی، بلکہ ایک حدیث کی دو سو سے زائد سندیں تھیں۔ اس طرح ان چھ لاکھ اسانید سے ان کا انتخاب کیا جو اسانید بخاری میں موجود ہیں۔ باقی اسانید امام بخاری کے معیار پر نہیں تھیں جن کو چھوڑ دیا گیا اور کچھ خوف طوالت کی وجہ سے چھوڑ دی گئی ہیں۔
جواب نمبر2:
امام بخاری رحمہ اللہ کے اس مقولہ کا یہ مطلب نہیں کہ باقی احادیث صحیح نہیں کیونکہ کتاب بخاری میں وہ حدیچ آئی ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق ہو، باقی احادیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اعلیٰ شروط کے تحت احادیث کو درج کیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ باقی احادیث صحیح ہی نہیں۔
جواب نمبر3:
امام بخاری رحمہ اللہ اپنے اس مقولہ کی خود ہی وضاحت فرمارہے ہیں:
”وما ترکت من الصحیح اکثر۔“ کہ صحیح احادیث جو میں نے درج نہیں کیں، وہ زیادہ ہیں۔
تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ متروکہ احادیث غیر مقبول ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ابراہیم بن معقل فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب صحیح احادیث اس لیے درج نہیں کیں کہ کتاب بہت لمبی نہ ہوجائے۔
(تاریخ بغداد، ج: 2، ص: 322، طبع: دار الغرب الاسلامی، بیروت)
منکرین حدیث نے یہ مغالطہ صرف دھوکا دینے کےلیے بنایا ہے۔
سبب تالیف:
علماءکرام سبب تالیف کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلے جوامع، مسانید میں ہر قسم کا مواد موجود تھا۔ عام لوگوں کےلیے اس میں صحیح کی پہچان مشکل تھی اور عمل کرنا بھی مشکل تھا۔ امام بخاری نے ارادہ کیا کہ صحیح احادیث کو الگ جمع کردیا جائے تاکہ عمل کرنا آسان ہوجائے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری کو اس کے متعلق خواب بھی آیا تھا۔ بسند صحیح امام بخاری کے شاگرد محمد بن سلیمان کہتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا:
” رَأَيْت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وكأنني وَاقِف بَين يَدَيْهِ وَبِيَدِي مروحة اذب بهَا عَنهُ فَسَأَلت بعض المعبرين فَقَالَ لي أَنْت تذب عَنهُ الْكَذِب فَهُوَ الَّذِي حَملَنِي على إِخْرَاج الْجَامِع الصَّحِيح “ فتح الباری، ج: 1، ص: 7)
اس ارادہ کو عملی صور ت میں ظاہر کرنے کےلیے اسحاق بن راہویہ کے ترغیب دلانے سے بھی کام لیا، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن اسحاق بن راہویہ کے پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے فرمایا: کوئی آدمی ہے جو صحیح احادیث کو الگ کرے؟ تو یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی، پس میں نے احادیث لکھنا شروع کردیں۔
امام بخاری کا اخلاص:
اس کتاب کے تالیف کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ کا حسن نیت اور اخلاص اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد محمد بن یوسف فربری کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
” مَا وضعت فِي كتاب الصَّحِيح حَدِيثا إِلَّا اغْتَسَلت قبل ذَلِك وَصليت رَكْعَتَيْنِ وفي رواية: تيقنت صِحَّته “
میں نے اپنی صحیح میں کوئی بھی حدیث غسل کرنے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بغیر نہیں لکھی، اور ایک روایت میں ہے: جب تک مجھے صحت کا یقین نہیں ہوگیا، میں نے حدیث نہیں لکھی۔
یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اخلاص کا نتیجہ ہے کہ تمام لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ صحت میں قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری کا درجہ ہے۔
کتاب بخاری پر ائمہ کی تقریظ اور تائید:
امام ابوجعفر عقیلی کا بیان ہے کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری کو مرتب کرلیا
” عرضه على أَحْمد بن حَنْبَل وَيحيى بن معِين وعَلى بن الْمَدِينِيّ وَغَيرهم فاستحسنوه وشهدوا لَهُ بِالصِّحَّةِ الا فِي أَرْبَعَة أَحَادِيث قَالَ الْعقيلِيّ وَالْقَوْل فِيهَا قَول البُخَارِيّ وَهِي صَحِيحَة “
تو اس کو احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی وغیرہ پر پیش کیا، تو سب نے اس کو سراہا ہے اور اس کی صحت کی شہادت دی ہے، مگر صرف چار حدیثوں میں۔ اور اس کے متعلق بھی عقیلی فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی بات صحیح ہے اور وہ حدیثیں بھی صحیح ہیں۔
قرآن مجید کے علاوہ تمام کتب احادیث پر کتاب بخاری کی اصحیت مسلم ہے۔ مقدمۃ ابن الصلاح، شرح نخبۃ الفکر، عمدۃ القاری کا مقدمہ اور مقدمہ فتح الباری سب اس چیز کی گواہی دیتے ہیں کہ ”اصح الکتب بعد کتاب اللہ کتاب البخاری“ تو ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔