سنن ابن ماجہ کی احادیث سے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ کے افادات:
علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے مجلس التربیہ لدول الخلیج، الریاض (گلف کے تربیتی آفس) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد احمد الرشید کی خواہش پر سنن اربعہ کی احادیث پر مختصر حکم لگا کر چاروں کتابوں کو الگ الگ مجلس ہی سے شائع کرنے کی غرض سے اس منصوبہ پر کام کیا اور چاروں کتابیں ضعیف اور صحیح کے عنوان سے شائع ہوئیں، بعد میں علامہ مرحوم نے 1417 ھ میں ان کتابوں کا نیا ایڈیشن تیار کیا اور یہ ساری کتابیں مکتبہ المعارف ریاض سے شائع ہوئیں، ذیل میں ہم نئے ایڈیشن میں دئیے ہوئے آپ کے ان افادات کو پیش کرتے ہیں جن سے سنن ابن ماجہ کی احادیث کی صحت وضعف کے مسئلہ پر قارئین کرام کو مفید معلومات حاصل ہوں گی اور ائمہ حدیث کے بالعموم اور علامہ ناصر الدین الالبانی کے بالخصوص طریقہ کار پر روشنی پڑے گی، البانی صاحب نے پہلے ایڈیشن کے طریقہ کار کو مختصراً ذکر کرنے کے بعد اس نئے ایڈیشن کی مناسبت سے مندرجہ ذیل فوائد کا ذکر کیا:
1- قرائے کرام اس ایڈیشن میں بعض صحیح یا ضعیف حدیثیں دیکھیں گے جو پہلے ایڈیشن میں موجود نہ تھیں، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مجھے اس کا علم نہ تھا، صرف ابن ماجہ کی سند پر علمی نظر ڈال کر حسب حال حدیث کے رتبہ کا ذکر کردیا تھا، ایسے ہی بعض سندوں کے ضعف کے ظاہر ہوتے ہوئے میں نے ان کے رتبہ کا ذکر اس ڈر سے نہیں کیا تھا کہ شاید شواہد کی وجہ سے وہ تقویت پاجائیں یا دوسرے اسباب جن میں سابقہ تحقیق کے لئے مقررہ مدت میں وقت کی تنگ دامانی بھی ایک سبب ہے جس کی وجہ سے حدیث پر حکم نہ لگ سکا۔
2- میں نے بہت ساری احادیث کو جن کی اس کتاب کی اسانید میں ضعف تھااس لئے قوی قرار دیاکہ اس کے دوسرے طرق یا شواہد خود اس کتاب یا دوسری کتب احادیث میں موجودتھے اور اس قسم کی احادیث کو اہل حدیث ”صحیح لغیرہ“ یا ”حسن لغیرہ“ سے تعبیر کرتے ہیں، اس بات کا تذکرہ اس واسطہ کررہا ہوں کہ کوئی فوراً تنقید نہ شروع کردے بالخصوص حافظ بوصیری کے زوائد ابن ماجہ میں یا دوسرے علماء کے دوسری کتابوں میںاحکام کومیرے احکام کے خلاف پائے، اس لئے کہ ”صحیح الجامع الصغیر “وغیرہ میں میں نے بعض احادیث کی تقویت کی تو بعض لوگوں نے اس پر یہ گمان کرکے نقد کیا کہ میں نے صرف جامع میں مؤلف کتاب کی حدیث کی اسناد پر مطلع ہوکرایسا کیا اور اس کا ضعف کبھی ظاہر ہوتا ہے، تو ان لوگوں نے طرق احادیث یا دوسری کتابوں کے شواہد میں زیادہ وسعت سے کام نہیں لیا، یہ لوگ اس علم کے مبتدی ہوسکتے ہیں یا اس علم کو سمجھے بغیر اور عملی تطبیق سے پہلے احادیث پر حکم لگانے میں جلدی کرتے ہیں، اور ضعیف حدیث اور حسن حدیث میں تفریق نہیں کرتے یا ”حسن“ اور ”حسن لغیرہ“ میں فرق نہیں کرتے اور ان کو اس بات کا وہم ہوتاہے کہ ہروہ حدیث جس میں ضعف ہو وہ ان کے ہاں ضعیف اور ناقابل استدلال ہے، علماء نے حدیث حسن کی جو تعریف کی ہے اس کا وہ لحاظ نہیں کرتے یعنی ایسی حدیث جس کا راوی ”خفیف الضبط“ ہو یعنی صحیح حدیث کے راوی کے حافظہ سے اس کا حافظہ کمزور ہو تو اس میں ضعف ہوگا لیکن وہ ضعف زیادہ سخت نہیں ہوگا، اور اس کے علاوہ دوسری چیزیں جن سے واقفیت صرف انہی لوگوں کو ہوتی ہے جوعمر کا ایک بڑا حصہ اس علم کی ممارست میں گزارتے ہوں اور طرق و شواہد حدیث کا تتبع کریں، جس سے حدیث کی صحت یا شذوذ و نکارت کی تحقیق و تاکید میں مدد ملتی ہے، بعض متقدمین جیسے حافظ بوصیری بھی اس وہم کا شکار ہوئے، آپ نے صرف ابن ماجہ کی سند وں پر اقتصار کرکے بہت سی حدیثوں کو ضعیف قرار دیا جبکہ دوسرے طرق سے یہ احادیث صحیح اور ثابت ہیں، بطور مثال کے ملاحظہ ہو (86، 74، 111، 117) اور اس کے علاوہ بہت سی مثالیں ہیں، اور ان احادیث میں سے بعض کی سند بخاری ومسلم یا کسی ایک کے یہاں صحیح ہوسکتی ہے جیسے کہ (91 اور 1580 نمبر کی احادیث)، اور اس کے برعکس ظاہری سند یا کمزور توثیق کی وجہ سے منکر احادیث کو قوی قرار دیا، بطور مثال ملاحظہ ہو: (458، 971، 1010، 1070 وغیرہ)
یہیں سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ قرائے کرام اس کتاب یا اس کے علاوہ دوسری کتابوں کی احادیث پر جو یہ احکام دیکھیں گے، یہ ایسے احکام نہیں ہیں کہ صرف سندوں کو دیکھ کر ان پر حکم لگا دیا گیا اور رواۃ کے تراجم پر دقت نظر سے کام نہیں لیا گیا، ان کے بارے میں جرح و تعدیل کے جو اقوال تھے ان پر غور وخوض نہیں کیا گیا، اور علم حدیث کے قواعد کی تطبیق نہیں کی گئی یا محدثین اور اہل اصول اور اہل رائے اور اہل ظاہر وغیرہ کے باہمی اختلافات سے صرف نظر کیا گیا ہے یا طرق حدیث اور ان کے شواہد و متابعت پر گہری نظر نہیں ڈالی گئی، جیسا کہ اس علم کے بعض مبتدی حضرات کا عمل ہے جن میں شیوخ، ڈاکٹر حضرات، یونیورسٹیوں کے طلباء اور نوجوان لوگ ہیں، تو یہ لوگ کرتے یہ ہیں کہ سند میں رجال کی توثیق کو دیکھتے ہی حدیث کی تصحیح کردیتے ہیں اور صحت کی بقیہ کتب مصطلح میں مذکور شرطیں جیسے شذوذ اور علت سے حدیث کاصحیح سالم ہونے کی رعایت نہیں کرتے، اور ایسے ہی کون سی علت قادح (موثر) ہے اور کون سی قادح نہیں ہے اس میں تفریق نہیں کرتے، اوربعض لوگ دوسری ان صحیح احادیث پر ثقہ کے تفرد کی وجہ سے چاہے زیادہ ثقہ اور زیادہ حافظ راوی اس کا مخالف نہ ہو حدیث پر ضعف یا شذوذ کا حکم لگادیتے ہیں یا ضعیف راوی کسی حدیث میں متفرد ہوتا ہے اور وہ اس کے متابع یا شاہد کا علم نہیں رکھتے یا حدیث مرسل ہوتی ہے، اور اس کے دوسرے موصول طرق سے آنے کا علم نہیں ہوتا تو ان سب باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صحیح حدیث پر ضعف یا شذوذ کا حکم لگادیتے ہیں، اس پر میرے پاس بہت ساری مثالیں ہیں جو میری مطبوع اور مخطوط کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں، جن کے تذکرے کا یہاں موقع نہیں ہے، جو اس مسئلہ میں بحث و تحقیق چاہتا ہے اسے میسر مراجع بالخصوص سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ اور ارواء الغلیل کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
تو میں کہتا ہوں کہ کمزوری اور تساہلی کی کوئی بات ہرگزنہیں ہے، احادیث پر یہ صحت و ضعف کے احکام الل ٹپ نہیں ہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ اللہ کی رضا کی خاطر اس شریف علم سے تعلق اور اس میں تخصص کا یہ ثمرہ اور نتیجہ ہے، جس علم کی تحصیل میں اللہ رب العزت کی توفیق سے دن و رات کامل شوق و رغبت اور اس کے حصول میں اجتہاد کی برکت سے اور احادیث کے متون و الفاظ اور طرق پر بالخصوص کتب احادیث کے مخطوط و مطبوع ذخیروں کے ساتھ تفسیر، سیر، تاریخ، زہد و رقائق کی ایسی کتابیں جو احادیث کو سندوں کے ساتھ ذکر کرتی ہیں، ان کتابوں میں سے چھان پھٹک کر اس نتیجہ تک پہنچنے کا عمل نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، ضائع شدہ ورق کا قصہ اس پر سب سے اچھی دلیل ہے جس کو میں نے دارالکتب الظاہریہ کے مخطوطات کی فہرست کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے، جس کو مجمع اللغہ العربیہ دمشق نے شائع کیا ہے، جس کا صفحہ (4 تا 7) ملاحظہ ہو، اس لئے کہ اس میں عبرت پکڑنے والوں کے لئے عبرت اور دلیل ہے۔
اور انہیں اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے فضل و کرم سے میرے لئے مختلف علوم و فنون کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں علماء کی صحبت عطا فرمائی، ان مبارک سالوں میں جن کے ساتھ مجالس کی نعمت میسر رہی، جن کی قدر وحلاوت اور شیرینی صرف وہی شخص محسوس کرسکتاہے جس نے اس طرح کی زندگی گزاری ہے، اور جن کے بارے میں شاعر نے سچ ہی کہا:
لنا جلساء لانمل حديثهم
ألباء مأمونون غيباً ومشهدًا
يفيدوننا من علمهم علم ما مضى
وعقلاً وتأديباً ورأياً مسددًا
بلا فتنةٍ تخشى ولا سوء عشرةٍ
ولا نتقي منهم لساناً ولايدًا
فإن قلت أموات فما أنت كاذبٌ
وإن قلت أحيائٌ فلست مفندًا
(ہمارے ہم نشیں ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم اکتاتے نہیں اور حاضر و غائب ہر حالت میں وہ عقل مند اور مامون ہیں، وہ ہمیں ماضی کے علم سے جو ان کا علم ہے فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان سے ہمیں عقل، ادب اور عمدہ رائے ملتی ہے، جن کے فتنہ کا ہمیں کوئی ڈر نہیں اور نہ جن کی صحبت بد سے ہمیں کوئی خوف ہے، اور نہ ہم کو ان کی زبان اورہاتھ سے کوئی ڈر ہے، اگر تم ان کو مردہ کہو تو جھوٹے نہیں ہو اور اگر تم ان کو زندہ کہو تو بھی غلط گو نہیں ہو)
تو میں برابر انہی اسلاف کرام کے علم سے فیض یاب ہورہا ہوں اور انہی سے خوشہ چینی کر رہا ہوں، بالخصوص اہل الحدیث و الاثر سے، اللہ کے فضل و توفیق سے میرے پاس ہزاروں احادیث و آثار اور ان کے ہزارہاہزارطرق واسانید موجود ہیں، جس کی وجہ سے ان احادیث کی علت کی معرفت اور ضعیف کی صحیح سے شناخت و تمیز میں مجھے پوری مدد ملی، جن کے نتیجہ میں یہ ساری تصانیف وجود میں آئیں، جن پر سالہا سال گزر گئے ہیں اور جن پربحث و تحقیق و تنقیح کا کام جاری ہے اور انہی سے ان احادیث کی صحت و ضعف پر کام ہوا۔
3- تیسرے فائدہ میں البانی صاحب نے اپنی (66) کتابوں کا ذکر کیا ہے، اور آخر میں اپنی بعض اصطلاحات کا ذکر کیا ہے، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میں ”صحیح“ یا ”حسن“ کہوں تو اس سے میری مراد متن حدیث ہے، اور سند کبھی ”صحیح“ ہوگی یا ”حسن لذاتہ“ ہوگی یا ”حسن لغیرہ“ اور یہ اس فن کے واقف کاروں پر واضح ہے یا ان مؤلفات کی طرف رجوع کرکے واضح ہوگا جس کا میں نے اس حدیث میں حوالہ دیا ہے، اور جب میں ”حسن صحیح“ ایک ساتھ کہوں تو اس کا معنی یہ ہے کہ حدیث کی سند ”حسن لذاتہ“ ہے اور حدیث ”صحیح لغیرہ“ (یعنی دوسری سندکی وجہ سے اس کو یہ حکم دیا گیا)، اور جب میں بخاری ومسلم یا دونوں میں سے کسی ایک کی طرف حدیث کو منسوب کرتا ہوں تو اس سے میری مراد ابن ماجہ کے یہاں حدیث میں موجو د صحابی سے قطع نظر متن حدیث کی ہوتی ہے، کبھی اسی صحابی کی حدیث ہوسکتی ہے جو ابن ماجہ کے ہاں ہے اور کبھی کسی دوسرے صحابی کی حدیث ہوگی (مقدمہ صحیح سنن ابن ماجہ 5-14)