امام ابن ماجہ اور آپ کی سنن کا تعارف:
حضرت الامام العلام نواب صدیق حسن نے صحیحین وسنن اربعہ کو صحاح ستہ کہا ہے، جیسا کہ ان کی کتاب الحطہ بذکر الصحاح الستہ سے ظاہر ہے، اور ان کے پہلے بھی بہت سارے اہل علم بھی ایسا ہی کرتے آئے ہیں، اس میں شک نہیں کہ سنن اربعہ میںبعض غیر صحیح احادیث بھی ہیں، لیکن حکم الاکثر حکم الکل کے مطابق اہل علم نے ان چھ کتب حدیث کو اگر صحاح ستہ کہہ دیا تو '' لا مشاحة في الإصلاح'' کے مطابق اس پر رد وقدح کی ضرورت نہیں، عام اہل علم نے امام ابن ماجہ کی کتاب سنن ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں داخل مانا ہے اور یہ بات بذات خود امام ابن ماجہ کی عظمت وسربلندی کی دلیل ہے۔
جس زمانہ میں امام ابن ماجہ قزوینی سن شعور کو پہنچے اس زمانہ میں ان کا وطن مالوف قزوین علوم وفنون خصوصاً علوم حدیث کا اچھا خاصا مرکز بن چکا تھا اور وہاں علوم حدیث کی متعدد درسگاہیں موجود تھیں، امام ابن ماجہ نے پہلے علوم اوائل اپنے آبائی شہر میں پڑھا پھر وہیں کے حلقہ ہائے علوم حدیث میں داخل ہو کر علوم حدیث پڑھا، قزوینی درسگاہ علوم حدیث میں سے امام ابن ماجہ نے علی بن محمد طنافسی، امام عمرو بن رافع ابو حجر بجلی، اسماعیل بن توبہ ابو سہل قزوینی، وہارون بن موسی بن حیان تمیمی، وغیرہم سے علوم حدیث حاصل کیا، ان قزوینی اساتذہ حدیث سے کئی احادیث سنن ابن ماجہ میں منقول ہیں، جیسا کہ سنن کے مطالعہ اور امام ابن ماجہ کے اساتذہ حدیث کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اوائل عمر ہی میں اپنے وطن عزیز میں اچھے خاصے صاحب علم اور محدث بن چکے تھے، مگر اس زمانہ کا دستور تھا کہ اپنے وطن کے اساتذہ ومشایخ سے پڑھ چکنے کے بعد حوصلہ مند اشخاص مزید حصول علم کی خاطر متعدد مشہور درسگاہوں میں پڑھنے چلے جاتے تھے، چنانچہ ابن ماجہ نے بھی یہی کام کیا، اور طلب علوم کے لیے مکہ معظمہ ومدینہ منورہ، کوفہ وبغداد ومصر وشام وغیرہ کا سفر کیا اور ان سارے مقامات کے مشہور ومعروف اساتذہ احادیث کی درسگاہوں میں پڑھا اور جب موصوف علوم حدیث میں پختہ کار ہوگئے تو انہوں نے اپنی کتاب حدیث ''سنن ابن ماجہ'' لکھی اور موصوف نے اس کے علاوہ دوسری کتاب ''السنہ'' لکھی اور ایک کتاب تفسیر قرآن مجید پر لکھی، نیز تاریخ کی عمدہ کتاب بھی لکھی، اور ہوسکتا ہے کہ ان کتابوں کے علاوہ بھی مزید کتب علوم لکھی ہوں اور موصوف کی فہرست اساتذہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بہت بڑے بڑے محدثین سے انہوں نے کسب علوم کیا۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ امام ابن ماجہ خود مسند درس پر بیٹھ کر طلبائے علوم کو درس وتعلیم دیتے رہے، اس کی تفصیل موصوف کے تلامذہ کی فہرست دیکھ کراور ان کے تراجم پر نظر ڈال کر معلوم کی جاسکتی ہے، کتب ستہ یا صحاح ستہ میں اہل علم کا سنن ابن ماجہ کا داخل کرنا ابن ماجہ اور سنن ابن ماجہ کی اہمیت کا مظہر ہے، اگر چہ اس میں کچھ ضعیف وغیر معتبر احادیث بھی آگئی ہیں حتی کہ بعض موضوع روایات بھی اس میں داخل ہوگئی ہیں، مگر للأکثر حکم الکل کے مطابق اس کتاب پر صحیح کا اطلاق ہوتا ہے۔
علامہ ابن خلکان متوفی 681ھ نے لکھا ہے:
''وکتابہ في الحدیث أحد الصحاح الستۃ '' یعنی سنن ابن ماجہ صحاح ستہ کی ایک کتاب حدیث ہے (وفیات الأعیان وإنباء أبناء الزمان /ترجمہ ابن ماجہ)
یہی بات حافظ ابن کثیر (متوفی 776 ھ)نے بھی معنوی طور پر کہی ہے (الباعث الحثیث ص90) اور حافظ ابن عساکر وحافظ مزی وحافظ ذہبی وحافظ ابن حجر، امام ابو القاسم رافعی نے بھی یہی بات کہی ہے جیسا کہ تہذیب التہذیب وتقریب التہذیب وکاشف وتذہیب التہذیب وغیرہ کتابوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔
خود امام ابن ماجہ نے کہا ہے:
«''عرضت هذه السنن على أبي زرعة فنظر فيه وقال: أظن ان وقع هذا الكتاب فى أيدي الناس تعطلت هذه الجوامع أو أكثرها، ثم قال: هل ولايكون فيه تمام ثلاثين حديثاً مما فى إسناده ضعف''»
یعنی میں نے اپنی کتاب السنن کو امام ابوزرعہ رازی کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اسے پڑھ کر کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ نفیس عمدہ کتاب اگر علمائے موجو دین کے ہاتھ میں آگئی تو اس کے مقابل تمام کتب جوامع یا اکثر کتب جوامع معطل ہوکر رہ جائیں گی، پھر کہاکہ غالباً اس میں تیس احادیث بھی پوری نہ ہوں جو ضعیف ہیں [تذكره الحفاظ للذهبي وشروط الأئمة الستة ص ۱۶ ومتعدد كتب رجال]
حافظ ابو زرعہ رازی کے اس بیان سے سنن ابن ماجہ کی اہمیت کا پورا اندازہ ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ سنن ابن ماجہ کی جن احادیث کو ضعیف سمجھا اور کہا گیا ہے، ان میں سے اکثر کے ایسے شواہد اور معنوی متابع موجود ہیں جن سے ان کا ضعف دور ہو جاتا ہے، پھر بھی کچھ احادیث ایسی ہیں جن پر ضعیف ہونے کا حکم لگائے بغیر بلکہ بعض پر موضوع کا حکم لگائے بغیر چارہ کار نہیں، لیکن اس سے اس کتاب (سنن ابن ماجہ) کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔