سکوت ابی داود پرعلامہ محمد ناصر الدین الالبانی کا جامع تبصرہ:
علامہ البانی نے صحیح وضعیف ابی داود کے مقدمہ میں ابو داود کے سکوت سے متعلق جوتفصیل بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے:
علم حدیث کے خدام کے ما بین یہ مشہور ہے کہ جن احادیث پر امام ابوداود نے اپنی سنن میں سکوت فرمایا، اورکوئی جرح نہیں کی ہے تووہ قابل استناد اور لائق استدلال ہیں، اس شہرت کا سبب خود امام موصوف ہیں، جن کی عبارتوں اور الفاظ کا یہ خلاصہ ہے، بلکہ بعض اقوال تو منصوص و صریح ہیں، میرے پاس اس موضوع پر امام موصوف کے چار اقوال ہیں، جن کو یہاں ذکر کرکے اپنی فہم کے مطابق اس مسئلہ پرگفتگو کروں گا، اور اپنی رائے کی تائید میں ائمہ کے اقوال پیش کروں گا۔
1- امام ابوداود سنن کے بارے میں اہل مکہ کے نام اپنے مشہور رسالہ میں فرماتے ہیں: میری کتاب سنن میں کوئی راوی متروک الحدیث نہیں ہے، اگر کوئی حدیث منکر ہے تو میں نے اس کا منکر ہونا واضح کردیا ہے، اور اس باب میں اس موضوع پر اس طرح کی اس کے علاوہ اورکوئی حدیث نہیں ہے، پھر فرمایا: ”وما كان في كتابي من حديث فيه وهن شديد فقد بينته، وما لم أذكر فيه شيئًا فهو صالح وبعضها أصح من بعض“۔
میری کتاب میں موجود احادیث میں اگر شدید ضعف اور کمزوری ہے، تو میں نے اس کو واضح کردیا ہے، اورجن احادیث میں میں نے کچھ کلام نہیں کیا ہے تو وہ صالح ہیں، اور بعض احادیث بعض سے زیادہ صحیح ہیں۔
2- اور فرمایا: ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے 5 لاکھ احادیث لکھی ہیں جن کے انتخاب پر یہ سنن مشتمل ہے، اس میں میں نے 4 ہزار آٹھ سو احادیث جمع کی ہیں، ”ذكرت الصحيح وما يشبهه وما يقاربه“ اس میں صحیح اور اس کے مشابہ اور قریب احادیث ذکر کی ہیں (تاریخ بغداد: 9؍57)۔
3- ” و روی عنہ انہ: یذکر فی کل باب اصح ما عرفہ فیہ“ آپ سے منقول ہے کہ آپ نے ہرباب میں صحیح ترین احادیث ذکر کی ہیں، (الباعث الحثیث فی اختصار علوم الحدیث (30)۔
4- ” ویروی عنہ انہ قال: ”وما سكتُّ عنه فهو حسن“ یہ بھی منقول ہے کہ جس حدیث پر میں نے سکوت کیاہے وہ حسن ہے۔ (الباعث الحثیث)
آخری قول (بشرط صحت) سکوت ابوداود سے استدلال کی شہرت کے باب میں صریح اور واضح ہے۔
پہلے کے دونوں اقوال میں اس مسئلہ سے تعرض نہیں ہے، ہاں! دوسرے قول سے آخری قول کو تقویت ہوسکتی ہے، اس لئے کہ صحیح کے مشابہ اور قریب حدیث حسن ہی ہے، اور امام ابوداود جن احادیث پر کلام کریں یا جن کی تعلیل بیان فرمادیں وہ حسن کے قبیل سے نہیں ہے كما لا يخفى.
پہلی روایت میں ”وهن شديد“ (شدید کمزوری) کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جس حدیث میں زیادہ ضعف نہیں ہوگا امام ابوداود اس کو بیان نہیں کریں گے۔
اس مفہوم مخالف کو مراد لے لینے کی صورت میں اس کے درمیان اور اس قول صریح: ”وما له لم اذكر فيه شيئاً فهو صالح ” (جس حدیث پر میں کچھ کلام نہ کروں وہ صالح ہے)کے مابین تطبیق دینے کی ضرورت ہے، تو یا یہ کہاجائے کہ اس مفہوم مخالف کا کوئی اعتبار ولحاظ نہیں ہے کیوں کہ یہ منطوق کے مخالف ہے، اور یہ (مفہوم مخالف) ہمارے یہاں ضعیف اور مرجوح ہے، دونوں اقوال کے ما بین تطبیق وتوفیق یوںممکن ہے کہ ابوداود کے یہاں ”صالح “ میں وہ ضعیف احادیث شامل ہوں، جن کا ضعف شدید نہ ہو تو ایسی صورت میں منطوق اور مفہوم کے مابین کوئی تعارض نہیں، اور بڑے غوروفکر کے بعد یہ ایسی بات ہے جس پرنفس کو اطمینان اور دل کو انشراح ہوتاہے، حافظ ابن حجر کا میلان بھی اسی طرف ہے، فرماتے ہیں: ابوداود کے کلام میں ” صحیح“ کا لفظ عام ہے کہ وہ استدلال وحجت کے لئے ہے یا اعتبار کے لئے، تو حدیث کے حسن پھر صحیح کے درجہ تک پہنچنے کی صورت میں لفظ”صالح“ سے استدلال وحجت کا معنی مراد ہوگا، اور جو حدیث صحیح وحسن کے درجہ کو نہ پہنچے تو وہ دوسرے معنی میں یعنی اعتبار کے قبیل سے ہے، اور جو (ان دونوں قسموں) سے پیچھے رہ جائے تووہ ایسی حدیث ہے جس میں ”ضعف شدید“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہ اچھوتی تحقیق ہے، اور علم حدیث میں صحیح نقدونظر سنن ابی داود میں ا ن چار اقسام کے وجود کی شاہد ہے، اور ان احادیث میں سے سند ا ً کمزور و واہی اور واضح کمزور احادیث ہیں جن پر امام ابوداود نے سکوت فرمایا، یہاں تک کہ امام نووی -رحمہ اللہ- نے بعض احادیث کے بارے میں فرمایا:
” امام ابوداود نے اس کے ضعف کی صراحت اس واسطے نہیں فرمائی کہ اس کاضعف ظاہرہے“۔
حافظ منذری ترغیب وترہیب کے مقدمہ (1؍8) میں فرماتے ہیں کہ ” ابوداود نے حدیث کی تضعیف پر سکوت اختیار کرکے جو تساہل کیا ہے املاء کے وقت اکثر احادیث پر جو یاد آگیا تو میں اس پر متنبہ کروں گا۔
پھر فرمایا: ”ہر حدیث جس کی نسبت میں نے ابوداود کی طرف کی، اور اس پرسکوت کیا تو ویسے ہی ہے جیسے ابوداود نے ذکر کیا، اور یہ احادیث درجہ ٔ حسن سے کم درجہ کی نہیں ہیں، ہوسکتاہے کہ شیخین یا کسی ایک کی شرط پر ہوں“۔
اس بنا پر حافظ ابن الصلاح نے مقدمۂ علوم حدیث میں پہلے تین اقوال کے تذکرہ کے بعد مندرجہ ذیل جو بات کہی ہے وہ بظاہر درست نہیں ہے، فرماتے ہیں: ” اس بناء پر آپ کی کتاب السنن میں مذکور احادیث جو صحیحین میں سے کسی میں موجود نہیں اور نہ تصحیح و تحسین کرنے والے اہل علم نے ان کی صحت پر تنصیص فرمائی ہے، ہمیں ایسی احادیث کے بارے میں معلوم ہواکہ یہ ابوداود کے یہاں حسن کے درجہ میں ہیں، اور ان میں بعض وہ احادیث بھی شامل ہوں گی جو نہ ان کے علاوہ کے یہاں حسن ہوں گی، اور نہ سابقہ حسن کے ضابطہ (جس کی ہم نے تحقیق کی ہے) کے تحت ان کا اندراج ہوگا“۔
ہمارے پاس اس مسئلہ میں ابوداود کا کوئی قول ایسا نہیں ہے جو ابن صلاح کے مذہب کے لئے دلیل بن سکے، صرف آخری قول ہے جس کی صحت کا ہمیں علم نہیں ہے، حتی کہ خود ابن صلاح نے اس کو اپنی کتاب میں ذکر کرنے سے اعراض کیا ہے، ظاہر ہے کہ ابن الصلاح نے ابوداود کے منطوق وصریح قول (فھو صالح) پر اعتماد کیا ہے، اور اس کے سابق الذکر مفہوم کی طرف التفات نہیں کیا، سابقہ بیان کی روشنی میں ابن الصلاح کی طرف سے یہ بات درست نہیں ہے، اور اس لئے بھی کہ خود ابن الصلاح نے حافظ ابن مندہ سے یہ نقل کیا ہے: ”كان أبوداود يخرج الإسناد الضعيف إذا لم يجد في الباب غيره، لأنه أقوى عنده من رأي الرجال“ (ابوداود جس باب میں ضعیف اسناد کے علاوہ کچھ اور نہیں پاتے تھے تو ضعیف اسناد کی تخریج کرتے تھے، اس لئے کہ یہ ان کے نزدیک آراءِ رجال سے قوی ترہے)۔
اوراسی لئے کئی محقق علماء نے ابن الصلاح کی تردید کی ہے، چنانچہ ابن کثیر دمشقی مختصر علوم حدیث میں آپ پر تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
” میں کہتاہوں کہ ابوداود سے سنن کی بہت ساری روایات ہیں، بعض نسخوں میں کچھ کلام پایا جاتا ہے، بلکہ کچھ احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جو دوسری روایتوں میں نہیں ہوتیں، ابوعبید آجری کی کتاب جو جرح وتعدیل اور تصحیح وتعلیل کے مباحث سے متعلق ابوداود سے سوالات پرمشتمل ہے، یہ ایک مفید کتاب ہے، ان سوالات میں وہ احادیث و رجال سند ہیں، جن کا ذکر ابو داود نے اپنی سنن میں کیا ہے، پس ابوداود کے اس قول: «وما سكتُّ عليه فهو حسن» ”جس حدیث پر میں نے سکوت اختیار کیا وہ صالح ہے“ پر انتباہ اور تیقظ کی ضرورت ہے۔
مناوی فیض القدیر میں ابوداود کے پہلے قول کے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ذہبی نے فرمایا: ابوداود نے وعدہ پوراکیا، اور ظاہری ضعف کو بیان کردیا، اور تصحیح یا تضعیف کی حامل احادیث پر سکوت فرمایا، تو جن احادیث پر سکوت فرمایا وہ ان کے یہاں حسن نہ ہوں گی، بلکہ جیساکہ ابن صلاح وغیرہ کا گمان ہے: لا بدی طورپر ان میں ضعف ہوسکتاہے، اس بات کو ابن مندہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں (جیسے کہ پہلے گزرا) مناوی نے آگے فرمایا: ابن عبدالہادی کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیںکہ ابوداود کا سکوت قابل استدلال واحتجاج ہے، اور یہ کہ یہ ابوداود کے یہاں حسن ہے، جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ جن احادیث پر ابوداود نے سکوت فرمایا ہے اور وہ صحیحین میں نہیں ہیں، ان کی اقسام اس طور پر ہیں کہ ان میں لائق استدلال صحیح احادیث ہیں اور ایسی ضعیف احادیث جو تنہا و مستقلاً قابل استدلال نہیں، اور ان دونوں کے درمیان کی ایک قسم تو سنن ابو داود میں احادیث کی 6؍یا 8؍ اقسام ہیں:
1- صحیح لذاتہ 2- صحیح لغیرہ یہ دونوں قسمیں ضعف سے خالی ہیں۔
3- شدید ضعف والی احادیث 4- ایسی احادیث جن کا ضعف شدید نہیں۔
5- ان دونوں قسموں میں سے وہ احادیث جن کے ضعف کو پورا کرنے کے لئے باہر سے احادیث موجود ہوں۔
6- اور ایسی احادیث جن کی تقویت کے لئے احادیث موجود نہ ہوں۔
7- ان دونوں قسموں سے پہلی دو قسمیں ایسی احادیث کی ہیں جن کا ضعف امام ابوداود نے خود بیان کردیا ہے۔
8- اور جن کا وہن (ضعف) بیان نہیں کیا ہے“۔
البانی صاحب کہتے ہیں: یہ تقسیم صحیح ہے، اس بیان سے واضح ہوگیا کہ ابوداود کا ہرسکوت ان کے نزدیک قابل استدلال حدیث حسن نہیں ہے، رہ گئے دوسرے علماء تو ان کے نزدیک اس مسئلہ میں کوئی جدال وبحث کی بات ہی نہیں ہے حتی کہ مرجوح قول کے قائلین کے یہاں بھی یہ مسئلہ اختلافی نہیں ہے، ابن الصلاح کے قول میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے، اور ائمہ ٔمحققین (جیسے: حافظ منذری، نووی، زیلعی، عراقی اور ابن حجر وغیرہم) کا عمل اسی پر ہے، چنانچہ ان علماء نے ابوداود کے سکوت والی بہت ساری احادیث کو ضعیف قراردیا ہے، جیساکہ آپ ضعیف سنن ابی داود میں ملاحظہ کریں گے ان شاء اللہ (مقدمہ صحیح وضعیف ابی داود 1؍13-19، ط غراس، کویت)۔