سکوت ابی داود پر حافظ ابن حجر کی رائے:
امام ابوداود کا بعض احادیث پرسکوت کبھی اس وجہ سے ہوتاہے کہ وہ حدیث زیادہ ضعیف نہیں ہوتی، اور کبھی ضعیف روایت پروہ اس لئے سکوت فرماتے ہیں کہ اس روایت کا ضعف بہت مشہور ومعروف ہوتاہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: اس سے ان لوگوں کے طریقہ کا ضعف ظاہرہوتاہے جو امام ابوداود کی ہر اس حدیث کو لائق استدلال جانتے ہیںجس پر آپ نے سکوت اختیار کیا ہے، آپ ابن لہیعہ، صالح مولیٰ توأمہ، عبداللہ بن محمد بن عقیل، موسیٰ بن وردان، سلمہ بن فضل اور دلہم بن صالح جیسے کمزور راویوں کی حدیثوں کی تخریج کرتے ہیں، اور ان پر سکوت اختیار کرتے ہیں، لہذا ناقد حدیث کے لئے قطعاً یہ روا نہیں کہ وہ ان روایتوں پر سکوت کے معاملے میں امام ابوداود کی تقلید کرے اور احتجاج واستدلال میں ان کی متابعت کرے، بلکہ ایسی روایتوں کے متعلق اس کا وطیرہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ خود ان میں غور کرے اور دیکھے کہ کیا ان کا کوئی متابع موجود ہے جس سے ان کو تائید و تقویت ملتی ہو، یا وہ منفرد وغریب ہیں تا کہ اس کے بارے میں توقف کیاجائے، خاص کر جب وہ اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی روایت کے مخالف ہوں تو وہ یقینا اپنے درجے سے گرکر منکر کے قبیل سے ہوجائیں گی۔
ابو داود نے بسا اوقات ان سے بھی زیادہ ضعیف راویوں مثلاً حارث بن وجیہ، صدقہ دقیقی، عثمان بن واقد عمری، محمد بن عبدالرحمن بیلمانی، ابوجناب کلبی، سلیمان بن ارقم اور اسحاق بن عبداللہ بن فروہ جیسے متروکین کی روایتوں کی تخریج کی ہے۔
اسی طرح اس کتاب میں بہت سی حدیثیں ایسی ہیں جن کی سندیں منقطع ہیں، یا ان کے رواۃ مدلس ہیں، اور وہ طریق حسن سے روایت کرتے ہیں یا ان کے رواۃ کے ناموں میں ابہام ہے ایسی تمام روایتوں پرمحض اس وجہ سے حسن کا حکم لگانا کہ امام ابوداود نے ان پر کوئی کلام نہیں کیا ہے درست نہیں، کیوں کہ:
1- وہ کبھی اس لئے بھی سکوت اختیار کرتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے راوی پر خود اپنی اس کتاب میں تفصیل سے کلام کرچکے ہوتے ہیں، بنابریں وہ سابقہ کلام پر اکتفا کرتے ہیں اس کے اعادہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
2- کبھی آپ کا سکوت غفلت و نسیان کے سبب ہوتاہے۔
3- اور کبھی اس لئے ہوتاہے کہ راوی کا ضعف بہت واضح ہوتاہے اس کے متروک الحدیث ہونے پر ائمہ میں اتفاق پایا جاتاہے جیسے ابوالحویرث اور یحییٰ بن العلاء وغیرہم۔
4- اور کبھی جو لوگ امام ابوداود سے روایت کرتے ہیں ان کے اختلاف کے سبب ایسا ہوتاہے اور ایسا بہت ہے، مثال کے طورپر ابوالحسن بن العبد کا روایت کردہ نسخہ ہے، اس کے بہت سے راویوں اورسندوں میں کلام ہے جو لؤلؤی کے نسخہ میں نہیں ہے گو یہ نسخہ اس سے مشہور ہے۔
5- اور کبھی سنن کے علاوہ دوسری تصنیفات میں اس حدیث کے ضعف پرتفصیلی گفتگو کرتے ہیں اورسنن میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔