عقیدہ:

مسائل ایمان اور ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے کا اعتقاد:
ائمہ اسلام بالخصوص امام بخاری نے مسائل ایمان بالخصوص اطاعت سے ایمان بڑھنے اور معصیت سے ایمان گھٹنے کے سلفی عقیدہ کو کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل سے ثابت کیا، اور اس باب کے سارے منحرفین کا رد و ابطال کیا، امام بخاری کے طرز پر ان کے تلمیذ رشید امام نسائی نے بھی سنن میں باقاعدہ کتاب الإیمان وشرائعہ میں (33) باب کے تحت (498 (5) 5039) (54) احادیث کی تخریج فرمائی، جو سب کی سب صحیح ہیں، اور اس طرح ایمان میں زیادتی اور کمی اور ایمان سے متعلق دوسرے عقائد سلف کی وضاحت فرمائی، ایک نظر ابواب پر ہو جائے جس سے آپ کی مسائل ایمان پر ترجیحات کا اندازہ ہو جائے گا:
(1) «ذكر أفضل الأعمال»
(2) «طعم الإيمان»
(3) «حلاوة الإيمان»
(4) «حلاوة الإسلام»
(5) «نعت الإسلام»
(6) «صفة الإيمان والإسلام»
(7) «تأويل قوله عزوجل: * قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا» [ الحجرات: 14]
(8) «صفة المؤمن»
(9) «صفة المسلم»
(10) «حسن إسلام المرء»
(11) «أي الإسلام أفضل»
(12) «أي الإسلام خير»
(13) «على كم بني الإسلام»
(14) «البيعة على الإسلام»
(15) «على ما يقاتل الناس؟» ‏‏‏‏
(16) «ذكر شعب الإيمان»
(17) «تفاضل أهل الإيمان»
(18) «علامة الإيمان»
(19) «علامة المنافق»
(20) «قيام رمضان»
(21) «قيام ليلة القدر»
(22) «الزكاة»
(23) «الجهاد»
(24) «أداء الخمس»
(25) «شهود الجنائز»
(26) «باب الحياء»
(27) «الدين يسر»
(28) «أحب الدين إلى الله»
(29) «الفرار بالدين من الفتن»
(30) «مثل المنافق»
(31) «مثل الذى يقرأ القرآن من مؤمن ومنافق»
(32) «علامة المؤمن»
امام ترمذی نے سنن صغریٰ میں کتاب العلم، کتاب الإیمان، کتاب القدر اور کتاب صفۃ القیامۃ وغیرہ عناوین میں ان مسائل پر روشنی ڈالی، اگر ائمہ حدیث کی عقائد سلف کی شرح و تفصیل اور منحرفین کے رد و ابطال سے متعلق کتب و رسائل کی محض فہرست ذکر کی جائے تو یہ مقدمہ طویل ہو جائے گا، میں نے امام وکیع بن الجراح کی کتاب الزہد کی تحقیق میں ائمہ دین کی ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، اس موضوع پر مولانا عبدالسلام محدث مبارکپوری کی سیرۃ البخاری کے ساتویں باب: عقائد اور علم کلام کا مطالعہ مفید ہو گا۔

سلف صالحین کتاب وسنت کے صحیح دلائل کی روشنی میں عقیدہ کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ کو سمجھتے، اس پر ایمان رکھتے، اس کی دعوت دیتے تھے، اس کے خلاف ہر رائے اور عقیدے کا رد و ابطال کرتے تھے، اور فلاسفہ اور متکلمین کی موشگافیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے، اس سلسلے میں امام مالک کے اقوال کافی مشہور ہیں، جن میں سے آپ کا یہ قول عقیدہ سلف کی نمائندگی واضح طور پر کرتا ہے: «الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسؤال عنه بدعة.» یعنی اللہ رب العزت نے قرآن میں جو اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے، تو استواء کا معنی و مفہوم معلوم و مشہور بات ہے، لیکن یہ استواء کیسے ہو گا، اس کی کیفیت کا علم نہیں ہے، اس پر ایمان لانا واجب اور فرض ہے، اور اس سلسلے میں سوال و جواب کرنا بدعت ہے۔ امام مالک نے یہ بات اس وقت کہی جب ایک آدمی نے آپ سے اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا۔

اسی طرح سے امام بخاری کو خلق قرآن کے مسئلہ پر نیساپور میں جب کچھ کہنے کے لیے مجبور کیا گیا تو آپ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: «القرآن كلام الله غير مخلوق وأفعال العباد مخلوقة والامتحان بدعة.» یعنی قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے، اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں، یعنی ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، اور اس مسئلے پر کسی کو امتحان میں ڈالنا اور اس سے پوچھ گچھ کرنا بدعت ہے۔ [مقدمۃ فتح الباری: 490]

سلف کا منہج عقائد کے بارے میں یہ تھا کہ وہ علم کلام کے مسائل میں زیادہ غور و خوض اور کرید کو سخت ناپسند کرتے تھے، اور ان مسائل میں سوال و جواب کو بدعت کہتے تھے، امام احمد بن حنبل اس باب میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، چنانچہ خلق قرآن کے مسئلے میں کتاب و سنت کے علاوہ اور کسی بات کے سننے کے قائل نہ تھے، احادیث رسول سے اس مسلک کی تقویت ہوتی ہے، چنانچہ امام ترمذی نے «كِتَاب الْقَدَرِ، بَاب مَا جَائَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْخَوْضِ فِي الْقَدَرِ» میں نیز امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کی ہے:
«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ، فَقَالَ: أَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ؟ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الأَمْرِ، عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تَتَنَازَعُوا فِيهِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے، آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو۔

تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ان کا ظہور اللہ کے قضاء و قدر اور اس کے ارادے و مشیئت پر ہے، اور اس کا علم اللہ کو پوری طرح ہے، لیکن ان امور کا صدور خود بندے کے اپنے اختیار سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اچھے اعمال کو پسند کرتا ہے، اور برے اعمال کو ناپسند کرتا ہے، اسی اختیار کی بنیاد پر پر انسانوں کو جزا اور سزا دیتا ہے، تقدیر کے مسئلہ میں کتاب و سنت کے دلائل سے اعراض کر کے اور محض اپنی عقل پر اعتماد کرکے بحث و مباحثہ جائز نہیں، کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا گمراہی کا خطرہ ہے۔

اوپر کی گزارشات سے یہ واضح ہو گیا کہ سلف صالحین کے نزدیک باطل عقائد کا رد و ابطال کتاب و سنت کے دلائل اور سلف کے اقوال سے ہوتا ہے، اور یہی صحیح علم کلام ہے، صحابہ کرام کے زمانے میں خوارج، قدریہ اور روافض جیسے فرقوں کا فتنہ موجود تھا، خود صحابہ کرام نے تمام مسائل پر کتاب و سنت کی روشنی میں کلام کیا، محدثین کرام نے اسی اسلوب کو آگے بڑھا کر ہر طرح کے منحرف فرقوں اور ان کے آراء و اقوال کا رد و ابطال کیا، ساتھ ہی غیر سلفی منہج و فکر پر مبنی علم کلام اور اس سے تعلق رکھنے والوں سے خود دور رہے، دوسروں کو ان سے دور رہنے کی تلقین اور وصیت فرمائی تاکہ نہ خود ان کے میل جول سے متاثر ہو کر ان کے باطل افکار و خیالات کا شکار ہوں اور نہ ہی اہل بدعت اہل سنت سے تعلقات استوار کر کے دوسروں کی نظر میں اپنی شبیہ کو اچھی بنائیں، اور اس کے ذریعے افراد امت کو گمراہ کر سکیں۔