سوانح حیات​:

ماہنامہ محدث: نومبر1999ء انٹرنیٹ ویکیپیڈیا:
نام:
ناصرالدین البانی۔
نسب نامہ:
محمد ناصرالدین البانی بن نوح بن آدم بن نجاتی البانی۔
ولادت:
شیخ ناصرالدین البانی کی ولادت 1914ء بمطابق 1332ھ میں البانیہ کے دارالسلطنت اشقودرہ میں ہوئی۔ ان کے والد نے البانیہ میں اپنی عافیت کی بدحالی کے خوف سے شام کی طرف ہجرت کی اور دمشق کو اپنا مسکن بنایا۔ کیونکہ البانیہ میں مغربیت کی ترویج ہونے لگی تھی۔
تعلیم وتربیت:
شیخ ناصرالدین البانی نے اپنی ابتدائی تعلیم دمشق کے مدرسہ مدرسہ الاسعا ف الخبریہ الابتدایہ میں شروع کی۔ دوران تعلیم مدرسہ میں آگ لگ جانے کی وجہ سے آپ سوق سروجہ کے ایک دوسرے مدرسہ میں منتقل ہو گئے۔
چونکہ ان کے والد دینی اعتبار سے دینی تعلیم کے مروجہ نظام سے مطمئن نہ تھے لہٰذا انہوں نے شیخ کی مدرسہ کی تعلیم کی عدم تکمیل کا فیصلہ کیا اور خود ان کے لیے ایک تعلیمی پرو گرام وضع کیاجو بنیا دی طور پرتعلیم قرآن، تجوید، صرف اور فقہ حنفی پر مرکوز تھا۔
شیخ نے بعض علماء دینیہ کی اور عربی کی تعلیم اپنے والد کے بعض رفقاء (جن کا شمار اس وقت کے شیوخ میں ہوتا تھا) سے بھی حاصل کی۔ ان شیوخ میں سے شیخ سعید بریانی سے آپ نے مراقی الفلاح اور علوم بلاغت کی کتابیں پڑھیں۔ آپ نے اپنے زمانہ میں صلب کے مشہور مؤرخ علامہ شیخ راغب طباخ سے ان کی جمع مرویات کی اجازہ فی الحدیث حاصل کی تھی۔ شیخ ناصرالدین البانی 20 سال کی عمر میں مجلۃ المنار میں شائع ہونے والی علمی بحوث سے متاثر ہو کر علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔
اس کے بعد پھر علم وعمل کی سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے اور اس مقام پر پہنچے جس پر بڑی محنت وکاوش کے بعد کوئی ایک پہچنا ہے آپ نے حدیث کی بہت خدمت کی۔
درس وتدریس:
فراغت کے بعد جب مدینہ منورہ میں الجامعہ الاسلامیہ (مدینہ منورہ) کی تاسیس ہوئی تو چانسلر مدینہ یونیورسٹی اور مفتی عام برائے سعودی عرب شیخ علامہ محمد ابراہیم آل شیخ نے حدیث اور فقہ الحدیث کو جامعہ میں پڑھانے کے لیے علامہ البانی کو مقرر کیا۔ یہاں آپ 3سال تک فریضہ تدریس سرانجام دیتے رہے۔ شیخ جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر دمشق پہنچے اور پھر مکتبہ اظاہریہ میں خود کو قیمتی تالیفات اور نفع بخش مؤلفات کے لیے وقف کر دیا تھا۔
شیخ کا ہفتہ واری علمی پرو گرام بھی ہوا کرتا تھا جس میں یونیورسٹیوں کے اجل اساتذہ تک حاضرہوا کرتے تھے ان پرو گراموں میں شیخ نے درج ذیل کتابوں کا درس دیا۔
1۔ الروضة القدية۔۔۔۔۔ صدیق حسن خان۔
2۔ منهاج السلام فی الحکم۔۔۔۔۔۔ محمداسد۔
3۔ اصول فقہ۔۔۔۔۔ عبدالوہاب کے خلاف۔
4۔ مصطلع التاریخ۔۔۔۔۔۔ اسدرستم۔
5۔ فقہ السنہ۔۔۔۔ سیدسابق۔
6۔ الحلال والحرام۔۔۔ یوسف قرضاوی۔
‎7۔ الترغیب والترهیب۔۔۔ حافظ منذری۔
8۔ فتح المجید شرح کتاب التوحید۔۔۔۔۔ عبدالرحمن بن حسن۔
9۔ الباحث الحشیب شرح اختصارعلوم الحدیث۔۔۔۔ احمدشاکر۔
10۔ ریاض الصالحین۔۔۔۔۔۔ امام نووی۔
11۔ الامام فی احادیث الاحکام۔۔۔۔۔ ابن دقیق العید۔
12۔ الادب المفرد۔۔۔۔۔ امام بخاری رحمہ اللہ۔
13۔ اقتضاء الصراط المستقیم۔۔۔۔ ابن تیمیہ۔
تصنیفات وتالیفات:
شیخ  ایک برق رفتار مؤلف تھے آپ کی مطبوعہ مؤلفات کی تعداد ایک سو بیس (120) سے متجاوز ہے۔
شیخ  کی کتابوں کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ بے شمار کتابوں میں سے شیخ کی چند ایک مشہور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ سلسله احادیث صحیحه
2۔ سلسله احادیث ضعیفه والموضوعه۔
3۔ صحیح الترهیب والترهیب
4۔ صحیح سنن ابی داؤد
5۔ صحیح الادب المفرد
6۔ صحیح ابن ماجہ
7۔ احکام الجنائز
8۔ تحذیر الساجدمن اتخازالقبور المساجد
9۔ حجاب المراة المسلمة فی الکتاب والسنة
10۔ ضعیف سنن ابی داؤد
11۔ ضعیف ابن ماجہ
12۔ ضعیف الترهیب والترهیب
13۔ معجم حدیث النبوی صلی اللہ علیہ وسلم۔
14۔ حجیت حدیث
15۔ حلال وحرام وسیلہ
16۔ بدعات کا انسائیکلوپیڈیا
17۔ توحید سب سے پہلے اے داعیان اسلام۔
18۔ نماز نبوی احادیث صحیحہ کی روشنی میں۔
اس کے علاوہ بھی شیخ کی بے شمار کتابیں ہیں۔
تلامذہ:
شیخ البانی  کے ذات سے بے شمار لوگوں نے فیض حاصل کیا آپ کے تلامذہ کی شمار ممکن نہیں ہے لیکن چند ایک مشہور تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔ شیخ حمدی عبدالمجید السلفی جومعروف محقق اور صاحب تحقیقات ومؤلفات وتخریجات علمیہ کثیرہ ہیں 37 سے زائدکتب آپ کی مساعی جمیلہ کاثمرہ ہیں۔
2۔ شیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق جومعروف مؤلف ہیں۔ مختلف موضوعات پر 24 سے زائد کتب تحریر فرکائی ہیں۔
3۔ ڈاکٹر عمر سلیمان الاشقر 18 سے زائد کتابوں کے مؤلف ہیں۔
4۔ شیخ خیر الدین وائلی 9 سے زائد وقیع کتابوں کے مؤلف ہیں۔
5۔ شیخ محمد عبید عباسی شیخ کے خادم ونمایاں تلامذہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔
6۔ شیخ محمد ابراہیم شقرہ 6 سے زائد نافع مؤلف آپ کی کاوشوں کا ثمرہ ہیں۔
7۔ شیخ محمد بن جمیل زینو 10 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔
8۔ شیخ مقبل بن یا دی الوداعی10 سے زائد مفید کتابوں کے مؤلف ہیں۔
9۔ شیخ زہیر الشاویش 19 سے زائد کتب آپ کی مساعی کا نتیجہ ہیں۔
ان کے علاوہ بہت سے مشاہیر علماء کرام جو دین کی خدمت میں پیہم مصروف کار ہیں شیخ  کی ذات سے کسب فیض حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔
وفات:
اپنی زندگی کے آخری سالوں میں شیخ  کو بہت سی بیماریاں لاحق ہو گئیں تھیں آخری ایام میں علاج کی غرض سے ہسپتال بھی داخل رہے۔ لیکن آخر کار 3 اکتو بر 1999ءکو اردن میں فکر و بصیرت کا یہ روشن ستارہ امت کا بطل جلیل، مقتدر عالم، باوقار مبلغ، دور اندیش مفتی، علم وفن کا امام، تصنیف وتالیف کے میدان کا شاہ سوار اور دعوت دین وتبلیغی کی محفلوں کا یہ شمع فروزان گل ہو گئی۔ «انا لله انا اليه راجعون .»