سوانح حیات:

فضل وکمال کا اعتراف:
ان کے معاصرین علما اور ارباب کمال ان کے علم و کمال کے معترف تھے، امام دار قطنی نے ان کو عدیم النظیر اور علامہ ذہبی نے فرید العصر اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے بحر امن بحور اعلم لکھا ہے، ابوعلی نیشا پوری فرماتے ہیں کہ ابن خزیمہ نے ہم سے جتنا استفادہ کیا، ہم نے اس سے زیادہ ان سے استفادہ کیا علامہ ابن سبکی ان کی جامعیت وفضیلت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وہ مختلف علم کے جامع اور مرتبہ کمال پر فائز تھے، نیشا پور میں جو علم وفن کا گہوارہ اور فضلا وارباب کمال کا مرکز تھا، یکتائے روزگار تھے، ان کی علمی شان سب سے بالا و برتر تھی، ان کے گرد طلبا و مستفیدین کا ہجوم رہتا تھا، ان کے مادے تمام روئے زمین میں نقل ہوتے تھے، عقل وفطانت میں بے مثال تھے، بحث مناظرہ میں انہیں زیر نہیں کیا جا سکتا تھا، در حقیقت علم وفضل کا ایسا بحرز خار تھے جس سے تشنگان علوم سیراب ہوتے تھے، ان کی اس علمی ضیا باری سے ایک عالم کو بصیرت حاصل ہوتی تھی، علما واساطین فن بھی ان کی جانب رجوع کرتے تھے، ان کے فیض کا یہ حال تھا۔
«كالبحر يقذف للقريب جواهرا كرما ويبعث لـلـغـريب صحائبا»
یعنی ابن خزیمہ سمندر کی طرح اپنے قریب کے لوگوں کو موتی اور جواہرات سے مالا مال کرتے ہیں اور دور والوں کے لیے باران رحمت کی طرح سامان فیض کرتے ہیں۔