کلام وعقائد کے بعض مسائل:
بدعات کو سخت نا پسند کرتے تھے اور عام محدثین کی طرح کلام و عقائد کے غیر ضروری مسائل میں بحث و تدقیق احتیاط و تقویٰ کے منافی خیال کرتے تھے، اپنے تلامذہ اور منتسبین کو سخت تاکید کر دی تھی کہ اس قسم کے مسائل میں پڑنے سے پر ہیز کریں، بعض تلامذہ کے متعلق جب ان کو معلوم ہوا کہ وہ ایسے مباحث ان کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں تو سخت برہمی ظاہر کی اور اعلان کر دیا کہ یہ لوگ میرے حوالہ سے جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ غلط ہے۔
عقائد و کلام سے متعلق انہوں نے جو کتا ہیں لکھی تھیں، ان میں اہل سنت والجماعت کے نقطہ نظر کی ترجمانی کی ہے، بعض مسائل میں عام اہل سنت سے بھی زیادہ متشدد تھے، چند مسائل کے متعلق ان کے آراد خیالات طبقات و تراجم کی کتابوں سے نقل کیے جاتے ہیں۔
قرآن مجید خدا کا کلام ہے، اس کی وحی و تنزیل اور وہ خود غیر مخلوق ہے، وہ خدا کی صفات میں ایک ذاتی صفت اور مستقل بالذات ہے، اس کو مخلوق، محدث اور فعلی صفت سمجھنے والے جہنمی، بدعتی اور گمراہ ہیں، بعض جاہل کہتے کہ اللہ تعالیٰ ٰ مکرر کلام نہیں کرتا، یہ لوگ کلام الہی سے نا آشنا اور اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں، اللہ نے کئی مقامات پر تخلیق آدم کا ذکر کیا ہے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا قصہ مکرر بیان کیا ہے: «فَبِأَىِ الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِبَانِ»، بار بار کہا: گیا ہے، یہ کسی مسلمان کا عقیدہ نہیں ہوسکتا اور جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ ازل میں کلام کرنے کے بعد اللہ پھر کلام نہیں کرتا وہ جہنمی ہے، اللہ عرش پر بلا کیف مستوی و متممکن ہے۔
ان مسائل میں وہ اتنے متشدد تھے کہ جہمیہ وغیرہ کو کافر بھی کہہ دیتے تھے، فرماتے ہیں: اللہ ازل سے متکلم ہے، جو شخص یہ گمان کرے کہ اللہ ایک ہی بار کلام کرتا ہے وہ کافر ہے، اسی طرح جو اس کا اقرار نہ کرے کہ اللہ عرش پر ساتویں آسمان کے اوپر متمکن ہے وہ کافر ہے، اس کا خون مباح اور مال حلال ہے، قرآن کو کلام الہی کے بجائے مخلوق سمجھنے والا کا فر ہے، اس سے توبہ کرائی جائے گی اگر توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے گا، اور وہ مسلمان کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا، جہمیہ اور کلامیہ ملعون اور اپنے عقائد و خیالات میں جھوٹے ہیں۔