فقه واجتهاد:
فقہ میں بھی ان کا درجہ نہایت بلند تھا، أبو یعلی اور مزنی جیسے اساتذہ وقت سے اس کی تحصیل کی تھی لیکن فقہ کے عام مذاہب میں سے وہ کسی خاص مذہب سے وابستہ نہیں تھے بلکہ ان کا شمار مجتہدین مطلق میں ہوتا ہے، علامہ ابن سیکی نے ان کو المجمد المطلق اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے {و هو من المجتهدين في دين الاسلام } لکھا ہے، ان کا خود بیان ہے کہ سولہ سال کی عمر کے بعد میں نے کسی کی تقلید نہیں کی۔
ابوزکریایحییٰ بن محمد عنبری فرماتے ہیں کہ میں نے ابن خزیمہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی موجودگی میں کسی شخص کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، و بعض علما کا خیال ہے کہ وہ خود صاحب مذہب اور مستقل امام فقہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کے فتاوے بھی ایک زمانے میں بعض اسلامی ملکوں میں رائج تھے، ان کے بعض فقہی مسائل کتابوں میں ملتے ہیں مثلاً: وہ رفع یدین کو نماز کا اہم اور ضروری رکن سمجھتے تھے، صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے اعادہ لازمی سمجھتے تھے۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”محمد بن اسحاق امام الائمہ کے لقب سے موسوم کیے جاتے تھے، ان کے متبعین ان کے مذہب کی پیروی کرتے تھے، وہ مقلد کے بجائے خود امام مستقل اور صاحب مذہب تھے، بیہقی نے یحییٰ بن محمد عنبری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اصحاب حدیث کے پانچ طبقے ہیں، (1) مالکہ، (2) شافعیہ، (3) حنبلیہ، (4) راہویہ، اور (5) خریمیه“