شیخ رحمہ اللہ کے متعلق راقم کی شخصی رائے:
شیخ رحمہ اللہ کی زندگی تقویٰ و پاکدامنی سے عبارت تھی۔ آپ کے سینہ میں قوم و ملت کا درد موجزن تھا۔ دینی حمیت و غیرت اور اسلامی جذبات سے آپ کا دل معمور رہتا تھا۔ آپ راہِ حق کے جانباز، مجاہد اور بقیۃ السلف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بعض معاندین کے سوا مقبولیت ِعامہ کی دولت سے نوازا تھا۔ عصر حاضر میں آپ امت ِمسلمہ کی روح رواں تھے۔ تنہا اپنی ذات میں ایک امت اور مکمل انجمن کے مثل تھے۔ آپ کی ذات سے بزمِ اسلام کے چراغ روشن تھے، آپ عہد ِحاضر کے سب سے نمایاں اور ممتاز داعی الی اللہ، اس صدی کے مجدد، مفتی، واعظ، محدث، مفسر، فقیہ، قرۃ عیونِ الموحدین اور مسلک ِسلف کے حامی و ناصر تھے۔ آپ کی فقاہت پر فقیہانِ عصر سر دھنتے تھے۔ آپ ذہانت و فطانت کے ایک بحر ناپید کنار تھے۔ فقاہت، ہدایت و ارشاد کے ایک بلند اخلاق امام اور دین کے عمائدین میں نمایاں تھے۔ آپ کی علمی مجالس کا وقار اس قدر بلند و ارفع ہوتا تھا کہ عالم اسلام کی سربر آوردہ ہستیاں بھی ان سے فیض یاب ہوا کرتی تھیں۔ آپ نے عالم اسلام کو علم و بصیرت، معرفت و حکمت اور اَخلاق و آداب کا جو انمول تحفہ دیا ہے، گزشتہ کئی صدیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
شیخ رحمہ اللہ اُلفت و محبت، تعظیم و تکریم، زہد و تقویٰ، لطف و کرم، تواضع و انکساری، حلم و بردباری، صبر و شکر، خشیت ِالٰہی، احسان و اکرام، علم و ادب، ضبط و تحمل، حب ِرسول، سادگی اور حسن اَخلاق جیسے اَوصاف و محاسن کے پیکر تھے۔ ان اعلیٰ صفات کے حامل ہونے کے ساتھ آپ رحمہ اللہ علم و فضل کا گنج گراں بہا بھی تھے۔ دینی علوم و فنون میں آپ کو تبحر اور دسترسِ تامہ حاصل تھی۔ آپ کے وسعت ِمطالعہ، تبحر علمی اور تحقیق مباحث کا چرچا عالم اسلام کی تقریباً ہر وقیع مجلس میں ہوا کرتا تھا۔ آپ کتاب و سنت کے سچے شیدائی، متبع اور ترجمان تھے، خلافِ سنت آپ کو کوئی بات گوارہ نہ تھی۔ آپ کی رحلت سے دنیائے علم میں پیدا ہونے والا خلا جلد پر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ جلد اس کی کوئی مؤثر سبیل پیدا فرما دے، «آمين! فانه ولي والقادر عليه»
بلاشبہ تاریخ اسلام اس بطل جلیل اور علم و بصیرت کے بلند منارہ کی خدمات و احسانات کے تلے ہمیشہ مستفید ہوتی رہیں گی غرض ان کی بے لوث خدمات اور قربانیوں سے تاریخ اسلام کے اَوراقِ زریں تاقیامت روشن رہیں گے۔