اہل علم سے تعلقات:
شیخ البانی رحمہ اللہ کا طلبہ علم سے ملاقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ان کے مابین ملاقات عموماً علمی مفید مباحث پر مشتمل ہوتی تھی۔ ان میں شیخ حامد رحمہ اللہ (رئیس جماعۃ أنصار السنۃ المحمدیۃ بمصر) علامہ احمد شاکر مصری رحمہ الله (معروف محقق)، شیخ عبدالرزاق حمزۃ رحمہ الله (صاحب ِتصانیف کثیرہ)، علامہ مجاہد الجوال تقی الدین ہلالی السلفی (مشہور بناصر السنہ و قامع البدعہ) قابل ذکر ہیں۔
ان کے علاوہ مفتی اعظم عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ (رئیس إدارة البحوث العلمیة والإفتاء والدعوة والإرشاد، الریاض) کے ساتھ شیخ رحمہ اللہ کی مفید علمی مجلسیں اور علمی مراسلت مشہور ہیں۔ اسی طرح صاحب طرز ادیب، تیزرو قلمکار اور المکتبۃ السلفیۃ کے مالک سید محب الدین خطیب رحمہ الله سے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”آداب الزفاف عن آداب الزفاف في التاریخ الإسلامي“ شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
دیارِ ہند کے معروف محقق شیخ عبدالصمد شرف الدین کے ساتھ بھی شیخ رحمہ اللہ کی ملاقات اور علمی مراسلت قائم تھی، چنانچہ ایک مرتبہ شیخ عبدالصمد نے لکھا تھا کہ:
”دار الافتاء، الریاض سے شیخ عبید اللہ رحمانی رحمہ الله شیخ الجامعۃ الاسلامیۃ (الجامعۃ السلفیۃ بنارس) کے پاس ایک غریب حدیث کے لفظ کے بارے میں کہ جو معنوی اعتبار سے عجیب ہے، یہ استفسار پہنچا ہے، جو علماء وہاں موجود تھے انہوں نے باتفاق طے کیا ہے کہ اس سلسلہ میں عصر حاضر کے احادیث ِنبویہ کے سب سے بڑے عالم یعنی شیخ البانی العالم الربانی کی طرف رجوع کیا جائے۔“
ان کے علاوہ شیخ رحمہ اللہ کی ملاقات جن بعض دوسرے معروف علماء سے ہوئی ان میں سے چند یہ ہیں: ”صبحی صالح، ترکی کے شیخ محمد طیب اوکیج بوسنوی، ڈاکٹراحمد العسال، شیخ ڈاکٹر ربیع بن ہادی المدخلی، مدینہ منورہ کے شیخ حماد الانصاری، کویت کی وزارۃ الاوقاف ولجنۃ الفتویٰ کے رکن اور صاحب تصانیف (مثلاً زبدۃ التفسیر وغیرہ) شیخ محمد سلیمان اشقر، معروف داعی اور صاحب ِرسائل علمیہ شیخ عبدالرحمن عبدالخالق اور کلیۃ الشریعۃ، کویت یونیورسٹی کے پروفیسر عمر سلیمان الاشقر وغیرہ۔
مشہور فقیہ یوسف قرضاوی اور شیخ رحمہ اللہ کے مابین بھی ثمر آور مفیدعلمی مجالس ہوئیں۔ قرضاوی احادیث کی تصحیح کے لئے شیخ رحمہ اللہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ چنانچہ کویت میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں قرضاوی نے اس بات کا خود اظہار کیا تھا۔
بیشتر ممالک، بالخصوص ہندوستان و پاکستان، کے بہت سے علماء اپنے خطوط میں شیخ رحمہ اللہ کے تئیں اپنی محبت اور ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے۔ جن میں استاذِ محترم شیخ عبید اللہ رحمانی مباکپوری رحمہ الله اور طنجہ (مراکش) کے مشہور اہلحدیث عالم شیخ محمد الزمزمی کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ شیخ زمزمی سے آپ کی ملاقات طنجہ میں ان کے مکان پر ہوئی تھی۔
ان کے علاوہ بہت سے طلبہ علم مختلف اسلامی علوم میں ایم۔ اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے اپنی دراسات اور اختصاصات کی بحوث کے سلسلہ میں ملاقاتیں کیا کرتے۔ آپ کی مجالس میں حاضر ہوتے، آپ سے مراسلت کرتے اور آپ سے سن کر مستفید ہوتے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر امین مصری رحمہ الله، ڈاکٹر احمد العسال (چیئرمین قسم الثقافۃ والدراسات الاسلامیۃ، جامعۃ الریاض) ڈاکٹر محمود الطحان (مدینہ یونیورسٹی میں حدیث کے سابق پروفیسر، اِن دنوںکلیہ الشریعہ، کویت یونیورسٹی) وغیرہ
ان مشاہیر کے علاوہ بہت سے دانش جو یاں نے شیخ رحمہ اللہ سے مفید انٹرویو لئے ہیں جو یا تو کیسٹوں کی صورت میں محفوظ ہیں یا مختلف عربی رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں۔ ان میں سے بعض انٹرویو کے اردو تراجم ہفت روزہ ”ترجمان“ ہلی وغیرہ میں بھی راقم کی نظر سے گزرے ہیں۔