شخصیت اور گراں قدر خدمات:
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو ان کے علمی مشاغل نے کبھی اتنی مہلت نہ دی کہ وہ خود اپنی سوانح لکھ پاتے، البتہ ان کے بعض تلامذہ (مثلاً شیخ مجذوب، شیخ علی خشان اور شیخ محمد عید عباسی وغیرہ م) نے ”موجزة عن حیاة الشیخ ناصر الدین“ کے عنوان سے آپ کا ترجمہ لکھا ہے، ان کے علاوہ شیخ محمد بن ابراہیم شیبانی نے ”حیاة الألباني و آثارہ و ثناء العلماء علیه“ نامی ترجمہ لکھا جو 929 صفحات پر محیط ہے اور 1407ھ میں الدار السلفیہ (کویت) سے شائع ہو چکا ہے۔
یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ محدث جلیل رحمہ الله کی پیش نظر سوانح حیات (جسے محدثین کی اصطلاح میں ترجمہ کہتے ہیں) کوئی بدعت نہیں ہے بلکہ شیوخ کبار کے تراجم، ان کے مناقب و آثار کو جمع کرنا سلف و صالحین اور محدثین کی عادت رہی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن جوزی رحمہ الله نے ”مشیخۃ“ میں، امام ذہبی رحمہ الله نے اپنے ”تاریخ“ میں (امام احمد رحمہ الله کا ترجمہ)، امام ابن کثیر رحمہ الله نے ”البدایة والنهایة“ میں، بزار رحمہ الله نے ”الأعلام العلیة في مناقب شیخ الإسلام ابن تیمیة“ میں، ابن ناصر دمشقی رحمہ الله نے ”الردّ الوافر في الانتصار لشیخ الإسلام“ اور ”الردّ علی العلاء البخاري في إفراء اته وأضالیله“ میں، ابن قیم رحمہ الله نے (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله کا ترجمہ) اور سیوطی رحمہ الله و سخاوی و غیرہما نے امام نووی رحمہ الله وغیرہ کے تراجم مرتب کئے ہیں۔
اس سوانحی خاکہ میں راقم نے کوشش کی ہے کہ محدث رحمہ الله شام کے حالات زندگی کے تمام گوشے قدرے تفصیل سے بیان کئے جائیں تاکہ آپ کی زندگی، آپ کی جدوجہد، آپ کا انہماک، آپ کی جستجو، سنت نبوی سے آپ کی محبت اور اس راہ میں آنے والے مصائب پر آپ کا صبر موجود ہ اور آنے والی نسلوں کے لئے، اسوہ و مثال بلکہ انمول نمونہ اور مشعل راہ بن سکے۔ (مرتب)
شیخ الالبانی رحمہ الله کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ آپ اپنی دینی خدمات، بےنظیر تالیفات، مقالات، تحقیقات، تخریجات اور دروس کی بنا پر عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں معروف ہیں۔ آپ کو حدیث نبوی، رجال اور اسانید پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ نے جس انداز پر دین کی بے لوث خدمات انجام دی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ ماضی قریب میں علم حدیث کے فنون میں آپ کا کوئی ہمسر اور ثانی نظر نہیں آتا۔ حق گوئی، راست بازی اور بےباکی آپ کا امتیازی وصف تھا۔ حکو مت اور اشخاص کی خوشامد اور چاپلوسی سے آپ کو شدید نفرت تھی یہی وجہ ہے کہ حسن اخلاق کے اس عظیم پیکر کو اپنے وطن مالوف اور دوسری جگہوں کو اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کے لئے خیر باد کہنا پڑا۔ محدث موصوف جہاں بھی جاتے وہاں کے بعض مخصوص ذہنیت اور عقیدے کے حامل افراد آپ سے خوفزدہ ہو جاتے اور سینکڑوں کتابوں کے اس مصنف و محقق کو اپنی راہ کا کانٹا تصور کرتے تھے۔ آپ کے محاضرات و بیانات، خطابات و ملاقات اور کیسٹوں پر سخت پہر ہ بٹھانے کے باوجود بھی آپ اپنے دعوتی مشن میں ہمہ وقت و ہمہ تن مصروف عمل رہے۔ «جزاه الله احسن الجزاء»