نام و نسب و کنیت:
نام محمد اور کنیت ابوعیسی ہے، اور نسب یہ ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی بوغی ترمذی، اکثر روایات کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہی ہے۔
بعض اقوال کے مطابق آپ کا نسب نامہ یوں ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن شداد سلمی بوغی ترمذی ہے۔
یعنی موسیٰ بن ضحاک کے بجائے شداد ہے جیسا کہ سمعانی کی کتاب الأنساب میں ہے، تہذیب الکمال للمزی میں یوں ہے: محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن سکن سلمی بوغی ترمذی، یعنی ابن موسیٰ کے بجائے ابن سکن ہے۔
ولادت و خاندان:
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش غالبا 210 ھ کے حدود میں ہوئی، بعض علماء کے قول کے مطابق 209 ھ میں ہوئی۔
آپ کے دادا مروزی تھے، لیث بن یسار کے دور میں مرو سے ترمذ منتقل ہوئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی، نہر بلخ جسے نہر جیحون بھی کہتے ہیں پر واقع شہر ترمذ میں امام ترمذی کی پیدائش ہوئی، پیدائش اور سکونت کی وجہ سے ترمذی کی نسبت سے مشہور ہوئے۔
ترمذ «ت» اور «م» کے کسرے (زیر) سے مشہور ہے، «ت» کے زبر اور پیش کے ساتھ بھی آیا ہے۔
قبیلہ غیلان کی شاخ ”بنی سلیم“ کی نسبت سے سلمی کہلاتے ہیں، اور بوغ ترمذ کے قریب ایک گاؤں کی نسبت سے بوغی، جو ترمذ سے چھ فرسخ کی دوری پر واقع تھا، اور جہاں پر آپ کی وفات ہوئی تھی۔
نابینا لیکن بابصیرت محدث:
امام ترمذی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ آپ پیدائشی طور پر نابینا تھے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کبرسنی میں علمی اسفار کرنے اور احادیث لکھنے لکھانے کے بعد آپ کی بصارت جاتی رہی، اس کا سبب زیادہ لکھنا پڑھنا بھی ہو سکتا ہے۔
اور بقول امام حاکم کے آخری عمر میں اللہ کے ڈر سے اتنا روئے کہ بینائی جاتی رہی، اور اسی حالت میں زندگی کے کئی سال گزرے۔ [تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب]
یہ عجیب اتفاق ہے کہ سنن ترمذی کے عظیم شارح علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری بھی آخری عمر میں اور سنن ترمذی کی شرح کی تکمیل سے پہلے نابینا ہو گئے، تو آپ کے ارشد تلامذہ نے آپ کی نگرانی میں شرح کی تکمیل کا کام کیا۔
طلب حدیث کے لیے بلاد اسلامیہ کا سفر:
محدثین کے طریقہ کے مطابق امام ترمذی نے احادیث کی روایت و تحصیل کے لئے بلاد اسلامیہ کے علمی مراکز کا سفر کیا، اور حجاز
(مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ)، بغداد
(عراق) جزیرہ، بصرہ، واسط اور خراسان وغیرہ کے علماء سے بکثرت سماع حدیث کیا، مصر اور شام نہ جا سکے۔
حافظ ذہبی اور ابن حجر کہتے ہیں: امام ترمذی نے بلاد اسلامیہ کا سفر کیا، اور خراسانی، عراقی اور حجازی وغیرہ رواۃ کی ایک بڑی تعداد سے سماع حدیث کیا، امام ترمذی نے نیساپور، مرواور اصبہان وغیرہ کے محدثین کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے استفادہ کیا۔
اساتذہ و شیوخ:
آپ کا زمانہ علوم حدیث کے عروج اور ترقی کا زمانہ تھا چنانچہ آپ نے بہت سارے محدثین کو پایا، ان سے اکتساب فیض کیا، احادیث سنیں اور روایت کیں، حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ اور سیر أعلام النبلاء میں آپ کے اساتذہ و شیوخ حدیث کی ایک فہرست دی ہے جن سے آپ نے سماع حدیث کیا،
ان میں سے بعض مشاہیر درج ذیل ہیں:
➊ ابراہیم بن عبداللہ بن حاتم ہروی (م: 244ھ)
➋ ابومصعب احمد بن ابی بکر الزہری المدنی (م: 242ھ)
➌ احمد بن منیع
➍ اسحاق بن راہویہ
➎ اسماعیل بن موسیٰ فزاری سدی (م: 245ھ)
➏ ابوداود سلیمان بن الاشعث (صاحب سنن) (م: 275ھ)
➐ سوید نصر بن سوید مروزی (م: 243ھ)
➑ عبداللہ بن معاویہ جمحی۔ (م: 243ھ)
➒ علی بن حجر مروزی (م: 244ھ)
➓ علی بن سعید بن مسروق الکندی الکوفی (م: 249ھ)
⓫ عمرو بن علی الفلاس (م: 942ھ)
⓬ محمد بن بشار بندار (م: 252ھ)
⓭ قتیبہ بن سعید ثقفی ابورجاء (م: 240ھ)
⓮ محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب (م: 244ھ) وغیرہ وغیرہ
⓯ محمود بن غیلان مروزی بغدادی (239ھ)
⓰ اور روایت حدیث کے ساتھ علوم حدیث و رجال اور فقہ حدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری سے حاصل کی۔
⓱ امام مسلم سے بھی آپ نے سماع حدیث کیا ہے، اور اپنی جامع کے اندر ان سے ایک روایت بھی نقل کی ہے۔
تلامذہ:
امام ترمذی سے بہت سارے علمائے حدیث کو شرف تلمذ حاصل ہے،
جن میں سے بعض رواۃ مندرجہ ذیل ہیں:
➊ ابوبکر احمد بن اسماعیل بن عامر السمرقندی
➋ ابوحامد احمد بن عبداللہ بن داود المروزی
➌ احمد بن علی بن حسنویہ المقریٔ
➍ احمد بن یوسف نسفی
➎ ابو الحارث اسد بن حمدویہ
➏ حماد بن شاکر وراق نسفی
➐ مکحول بن فضل نسفی
➑ محمود بن عنبر نسفی
➒
ابوالفضل محمد بن محمود بن عنبر نسفی
➓ عبدبن محمد بن محمود نسفی
⓫ داود بن نصر بن سہیل برزوی
⓬ محمد بن مکی بن نوح نسفی
⓭ محمد بن سفیان بن نضر نسفی
⓮ محمد بن منذر بن سعید ہروی
⓯ ہیثم بن کلیب شاشی (الشمائل کے راوی)
⓰ محمد بن محبوب ابوالعباس محبوبی مروزی (سنن الترمذی کے راوی)
⓱ امام بخاری نے بھی آپ سے ایک حدیث روایت کی ہے جس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن اسماعیل نے مجھ سے سنی، وہ حدیث یہ ہے: «عن أبى سعيد: يا على لا يحل لأحد أن يجنب فى المسجد غيري وغيرك.» [سنن الترمذي 3727]
زہد و تقویٰ:
امام ترمذی نہ صرف یہ کہ علوم و فنون میں امامت کا درجہ رکھتے تھے بلکہ آپ عبادت و تقویٰ اور ورع اور زہد میں بھی شہرت رکھتے تھے، حاکم کہتے ہیں: امام بخاری کا انتقال ہوا تو انہوں نے علم حفظ اور زہد ورع میں ترمذی کی طرح کسی اور کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑا، آپ اللہ کے ڈر سے اتنا روتے تھے کہ اندھے ہو گئے، اور کئی سال اندھے رہے۔ [تذكرة الحفاظ، تهذيب التهذيب]
تصانیف:
امام ترمذی رحمہ اللہ کو چونکہ حدیث اور علوم حدیث کے علاوہ تاریخ، فقہ اور تفسیر وغیرہ پر بھی کافی دسترس حاصل تھی لہٰذا انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور بہت سی علمی کتب تصنیف کیں جن میں سے چند معروف کتب یہ ہیں:
➊ «كتاب الجامع» جو سنن ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔
➋ «الشمائل النبوية» جو شمائل ترمذی کے نام سے مشہور ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے متعلق احادیث میں ایک بہترین تصنیف ہے جیسا کہ عبد الحق محدث دہلوی نے «أشعة اللمعات» میں اس کی تعریف فرمائی ہے۔
➌ «كتاب العلل» اس موضوع پر آپ کی دو کتابیں ہیں:
① «كتاب العلل الصغير» اور
② «كتاب العلل الكبير» جس میں امام ترمذی نے زیادہ تر اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ سے استفادہ کیا ہے۔
➍ «كتاب الزهد »
➎ «كتاب التاريخ»
➏ «الأسماء والكنٰي »
➐ «كتاب التفسير»
➑ «كتاب الجرح والتعديل»
وفات:
امام ترمذی رحمہ اللہ کا انتقال مشہور روایت کے مطابق 13 رجب 279ھ میں 2 شنبہ کی شب کو خاص ترمذ شہر میں ستر سال کی عمر میں ہوا۔ لیکن ابن خلکان رحمہ اللہ نے سمعانی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے ”امام ترمذی بوغ بستی میں 279ھ میں فوت ہوئے“ جو کہ ترمذ سے چھ فرسخ (اٹھارہ میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔
حفاظ حدیث میں مقام:
امام ترمذی رحمہ اللہ متفق علیہ مشہور ثقہ حافظ حدیث امام ہیں ان کو حفاظ حدیث میں بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میرے استاد امام بخاری رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا کہ جتنا تم نے مجھ سے فائدہ حاصل کیا اتنا فائدہ میں تم سے حاصل نہ کر سکا۔ [تهذيب الكمال]
ابو اسعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی:
ابو اسعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: ابوعیسی ترمذی حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے، اس سلسلے کا ایک واقعہ وہ اپنے شیخ ابوبکر احمد بن محمد بن حارث مروزی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے احمد بن عبداللہ بن داود کو یہ کہتے سنا کہ میں نے امام ترمذی کو کہتے سنا: ایک بار میں مکہ کے راستے میں تھا اور میں نے ایک شیخ کی احادیث کے دو جزء لکھے تھے، مجھے شیخ ملے تو میں نے آپ سے سماع حدیث کا مطالبہ کیا، میں سمجھ رہا تھا کہ شیخ کی احادیث کے دونوں جزء میرے پاس ہیں، آپ نے قرأت حدیث پر آمادگی ظاہر کی، میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پاس سادہ کاغذوں کے دو جزء ہیں، شیخ یہ احادیث پڑھ کر مجھے سنانے لگے اور مجھے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سادہ کاغذ ہے، اور مجھ سے کہا: تمہیں ایسا کرتے مجھ سے شرم نہیں آتی تو میں نے صورت حال سے آپ کو باخبر کیا، اور عرض کیا کہ مجھے ساری احادیث یاد ہیں، تو آپ نے کہا کہ پڑھو میں نے انہیں پڑھ کر سنایا تو انہوں نے میری تصدیق نہ کی اور کہا کہ کیا آنے سے پہلے تم نے ان احادیث کو یاد کر لیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے دوسری حدیثیں سنائیں، تو آپ نے چالیس حدیثیں مجھے پڑھ کر سنائیں پھر مجھ سے کہا کہ لاؤ سناؤ، تو میں نے ان کو پڑھ کر سنا دیا، ایک بھی حرف کا فرق نہ تھا تو انہوں نے کہا: میں نے تمہارے جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ [تهذيب التهذيب، السير 273/13]
حافظ ابو یعلیٰ:
حافظ ابو یعلیٰ کا بیان ہے: ”محم دبن عیسیٰ بن سورہ، متفق علیہ ثقہ حافظ حدیث امام ہیں، ان کی حدیث میں ایک کتاب ہے نیز جرح و تعدیل میں ان سے بہت سارے اقوال منقول ہیں ... وہ امانت، دیانت اور علم میں ایک مشہور امام ہیں۔“
حافظ ابو سعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی:
حافظ ابو سعد عبدالرحمن بن محمد ادریسی کہتے ہیں: علم حدیث میں جن ائمہ کی اقتداء کی جاتی ہے، امام ترمذی ان میں سے ایک امام تھے، آپ نے جامع، تواریخ اور علل نامی کتابیں تصنیف فرمائیں، آپ کی تصانیف پختہ عالم دین کی تصانیف ہیں، آپ حفظ حدیث میں ضرب المثل تھے۔ [شروط الأئمه السته: ص20، تهذيب التهذيب 386/9]
امام ابن حبان:
امام ابن حبان اپنی کتاب الثقات میں امام ترمذی رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”یہ ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جنہوں نے احادیث جمع کیں، علم حدیث میں کتابیں لکھیں، احادیث کو حفظ کیا اور اس کا مذاکرہ کیا۔ [الثقات، تذكرة الحفاظ، نكت الهميان للصفدي، تهذيب الكمال]
امام سمعانی:
امام سمعانی فرماتے ہیں: ”امام ترمذی رحمہ اللہ بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔“
امام ابن خلکان:
”امام ترمذی بلا اختلاف اپنے عہد کے امام اور صاحب تصانیف تھے اور ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔“ اسی جیسی بات امام ابن خلکان نے بھی کہی ہے۔ [الأنساب، وفيات الاعيان]
امام حاکم:
امام حاکم کہتے ہیں: میں نے عمر بن علک کو یہ کہتے سنا: امام بخاری کا انتقال ہوا تو انہوں نے خراسان میں علم، حفظ اور ورع و زہد میں ابوعیسیٰ ترمذی کی طرح کسی اور کو نہیں چھوڑا، ترمذی اتنا روئے کہ اندھے ہو گئے اور کئی سال اندھے رہے۔ [السير 273/13، تذكرة الحفاظ 634/2، تهذيب التهذيب 389/9]
محدث خراسان امام ابو احمد حاکم نیساپوری (م: 378ھ) نے اپنے ایک شیخ سے یہ بات نقل کی ہے کہ جس وقت امام محمد بن اسماعیل کا انتقال ہوا اس وقت انہوں نے اپنے شاگردوں میں امام ترمذی سے بڑھ کر کسی کو علم، حفظ، زہد و ورع میں نہیں چھوڑا، ترمذی خوف الٰہی اس قدر روتے تھے کہ نابینا ہو گئے۔
امام حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی:
امام حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی کا بیان ہے: ”محمد بن عیسیٰ بن سورہ ترمذی جو کہ نابینا تھے ان ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی علم حدیث کے اندر اقتداء کی جاتی تھی۔ انہوں نے علم حدیث، تاریخ اور علل میں کتابیں لکھی ہیں جو ایک متبحر عالم کی تصنیفات ہیں حفظ حدیث میں ان کو بطور مثال ذکر کیا جاتا ہے۔
امام مزی:
امام مزی کہتے ہیں: ”وہ حافظ حدیث صاحب الجامع اور دیگر کتابوں کے مصنف ہیں، نیز حفظ اور ثقاہت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے امت کو نفع پہنچایا۔“ [تهذيب الكمال]
امام ذہبی:
امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں امام ترمذی کو حافظ، علم، امام، بارع کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ جامع اور علل وغیرہ کے مصنف ہیں۔
اور تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں کہ امام ترمذی حافظ حدیث، صاحب الجامع متفق علیہ ثقہ تھے، ابن حزم نے آپ کو جو مجہول کہا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ [تذكرة الحفاظ]
امام حافظ ابن حجر عسقلانی:
امام حافظ ابن حجر عسقلانی کا بیان ہے: ”وہ حفظ اور ثقاہت کے اعتبار سے دنیا کے اماموں میں سے ایک تھے۔“ [تقريب التهذيب]
حافظ ابن حجر فتح الباری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: ”ترمذی نے بخاری سے علم حاصل کیا، اور آپ پر کافی اعتماد کیا۔“ [هدي الساري: 492]
طاش کبری زادہ:
طاش کبری زادہ لکھتے ہیں: ”یہ حافظ حدیث، اور ان ائمہ اعلام میں سے ہیں اور انہیں فقہ میں بھی مہارت تھی انہوں نے ائمہ حدیث کی ایک جماعت سے احادیث حاصل کیں اور صدر اول کے مشائخ سے ان کی ملاقات ہوئی۔“ [مفتاح السعاده]
ابن عماد حنبلی:
ابن عماد حنبلی کہتے ہیں: امام ترمذی اپنے ہم عصروں میں واضح مقام رکھتے تھے۔ اور حفظ اور اتقان میں وہ ایک نشانی، نمونہ تھے۔ [كتاب شذرات الذهب]
امام ترمذی متفقہ طور پر ثقہ محدث، ناقد حدیث اور امام دین ہیں، آپ کی تصانیف مشہور و معروف ہیں، لیکن اس شہرت اور امامت کے علی الرغم ابن حزم نے آپ کے بارے میں کتاب الاتصال کے باب الفرائض میں یہ کہہ دیا کہ آپ مجہول راوی ہیں، اس پر علماء نے نکیر کی،
◈ حافظ ذہبی: حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں: ”ترمذی حافظ اور اعلام میں سے ہیں، جامع کے مؤلف اور متفق علیہ ثقہ ہیں، ابن حزم کا یہ کہنا کہ ترمذی مجہول ہیں، لائق التفات بات نہیں ہے، ابن حزم نے نہ ترمذی کو جانا اور نہ ہی جامع ترمذی اور علل ترمذی کے وجود کا انہیں علم تھا۔“ [ميزان الاعتدال]
◈ امام ذہبی سیر أعلام النبلاء میں ابن حزم کے فضائل اور عیوب کے گنانے کے بعد فرماتے ہیں: ”مجھے ابومحمد ابن حزم سے ان کی صحیح حدیث سے محبت اور اس کی معرفت کی بنا پر محبت ہے، گرچہ میں ان کے علم رجال، علل حدیث اور اصول و فروع میں غلط مسائل کی کثرت کی وجہ سے ان کی موافقت نہیں کرتا، اور کئی مسئلے میں قطعی طور پر ان کو غلط کہتا ہوں، لیکن نہ تو ان کی تکفیر کرتا ہوں، اور نہ انہیں گمراہ کہتا ہوں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کا امیدوار ہوں، ان کے ذہن کی تیزی اور علم کی وسعت کا قائل و معترف ہوں، میں نے دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کا یہ قول ذکر کیا کہ سب سے عظیم اور اہم کتاب موطأ امام مالک ہے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: بلکہ سب سے عظیم کتابیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن السکن، منتقی ابن الجارود، اور منتقی قاسم بن اصبغ ہے، پھر اس کے بعد سنن ابی داود، سنن نسائی، مصنف قاسم بن اصبغ، مصنف ابی جعفر الطحاوی کا نمبر آتا ہے،
◈ ذہبی کہتے ہیں: ابن حزم نے نہ تو ابن ماجہ کا ذکر کیا اور نہ ہی جامع ترمذی کا، یہ دونوں کتابیں ابن حزم نے دیکھی نہ تھی، بلکہ ان کی موت کے بعد یہ دونوں کتابیں اندلس پہنچیں۔ [سير أعلام النبلاء]
◈ حافظ ابن حجر: حافظ ابن حجر تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں: خلیلی نے ترمذی کو متفق علیہ ثقہ کہا ہے، لیکن ابن حزم نے اپنے بارے میں یہ اعلان کیا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں تھا اس لیے کہ انہوں نے کتاب الاتصال کے کتاب الفرائض میں محمد بن عیسیٰ ترمذی کو مجہول کہا، ہرگز کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ شاید ابن حزم نے ترمذی کو نہ جانا اور نہ ان کے حفظ اور ان کی تصانیف پر مطلع ہوئے، اس لیے کہ یہ حضرت مشاہیر ثقات حفاظ کی ایک جماعت کے بارے میں اس طرح کی عبارات استعمال کرتے ہیں، جیسے ابوالقاسم البغوی اسماعیل بن محمد الصفار اور ابوالعباس الاصم وغیرہ وغیرہ۔
تعجب یہ ہے کہ حافظ ابن الفرضی نے اپنی کتاب المؤتلف والمختلف میں ترمذی کا تذکرہ کیا، اور ان کی علمی منزلت کو واضح کیا، تو ابن حزم کیسے ان معلومات کی آگاہی سے چوک گئے۔ [تهذيب التهذيب]
واضح رہے کہ مشاہیر کے سلسلے میں اس طرح کی عدم واقفیت ابن حزم ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، امام بیہقی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے پاس سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نہیں تھیں، ہاں ان کے پاس حاکم کی مستدرک علی الصحیحین تھی، جس سے انہوں نے بکثرت احادیث روایت کی۔ [تذكرة الحفاظ، مقدمه تحفة الأحوذي 271/1]