سوانح حیات​:​

نام و نسب:
عبداللہ نام، ابوبکر کنیت، پورا سلسلہ نسب یہ ہے، عبداللہ بن الزبیر بن عیسیٰ بن عبیداللہ بن اسامہ بن عبداللہ بن حمید بن زہیر بن الحارث بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی۔


ولادت:
ان کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی لیکن سنہ ولادت اندازہً 150ھ ہے۔


خاندان اور وطن:
امام حمیدی نسلاً خالص عرب تھے،
مکہ معظمہ کی خاک پاک سے اُٹھے اورآخر میں اسی کا پیوند بنے،
جیسا کہ مذکورہ بالا مفصل نسب نامہ سے ظاہر ہے،
قریش کے مشہور خاندان اسد بن عبدالعزیٰ کی ایک معزز شاخ بنو حمید سے نسبی تعلق رکھتے تھے۔
اس باعث اسدی، مکی، قرشی اور حمیدی کی نسبتوں سے مشہور ہوئے،
ان میں آخر الذکر نسبت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بعض علماء کا اختلاف ہے،
لیکن اصح ومرجح یہی ہے کہ بنو حمید کے خاندان والے حمیدی کہلاتے ہیں،
حافظ ابن اثیر نے اسی کو اختیار کیا اور علامہ سمعانی نے ارجح قرار دیا ہے،
اصمعی کے اس قول سے بھی اس کی مزید تائید ہوتی ہے:
«حميد يون كلهم من بني اسد بن قريش»
تمام حمیدی بنو اسد بن قریش کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔


فضل و کمال:
امام حمیدی ان نامور اہل علم اتباع تابعین میں تھے،
جنہوں نے نہ صرف علم وعمل کے چراغ روشن کیے ؛ بلکہ قرطاس وقلم کے ذریعہ زر و جواہر کے انبار لگا دیئے،
ان کی شہرہ آفاق مسند حدیث کے قدیم ترین اور مستند ذخیروں میں شمار کی جاتی ہے،
امام بخاری جیسے محتاط محدث ان کی روایت کو اپنی جامع کا سرآغاز بناتے ہیں،
حدیث میں خصوصی فیضان رکھنے کے ساتھ انہیں فقہ وافتاء پر کامل عبور حاصل تھا،
اپنے گوناگوں علمی کمالات کی وجہ سے «عالم اهل مكة» ان کا لقب ہی پڑ گیا،
تمام اربابِ تذکرہ بہت نمایاں طور پر ان کے فضل وکمال کا اعتراف کرتے ہیں۔
چنانچہ حافظ ذہبی «الامام العلم الحافظ الفقيه» لکھتے ہیں.
«ابن عماد الحنبلي كان اماما حجة علامه زركلي احد الائمة فى الحديث» اور سبکی، محدث مکۃ و فقیھھا تحریر فرماتے ہیں:
حافظ جلال الدین السیوطی رقم طراز ہیں:
«احد الائمة صاحب المسند»


شیوخ:
امام حمیدی کی جلالتِ مرتبت اور تبحرِ علمی کا مزید ثبوت ان کے شُیوخ و اساتذہ کی طویل فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے مل جاتا ہے،
جس میں امام شافعی، مسلم بن خالد، فضیل بن عیاض جیسے فخر زمانہ ائمہ کے نام ملتے ہیں،
کہاجاتا ہے کہ وہ حضرت سفیان بن عیینہ کے کیسۂ فیض سے کامل بیس سال تک مستفید ہوتے رہے۔
حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں:
«صحب ابن عينية فاكثر عنه وهو من اصح الناس عنه حديثاً»
انہوں نے حضرت سفیان بن عیینہ کی بڑی صحبت اُٹھائی اور اسی باعث ان سے بکثرت روایتوں کا سماع حاصل کیا۔
چنانچہ تمام لوگوں میں ابن عیینہ سے سب سے زیادہ صحیح الروایت ہیں۔
ان کے علاوہ حمیدی نے جن علماء سے اکتساب علم کیا ان میں کچھ کے نام یہ ہیں:
ابراہیم بن سعد،
ولید بن مسلم،
وکیع ابن الجراح الرواسی،
مروان ابن معاویہ،
عبدالعزیز بن ابی حازم،
دراوردی،
بشر بن بکر التینسی۔


تلامذہ:
خود ان کے چراغِ علم سے روشنی حاصل کرنے والے تلامذہ میں بلند پایہ ماہرین فن شامل تھے،
چند ممتاز نام یہ ہیں:
امام بخاری،
محمد بن یحییٰ الذہلی،
ابوزرعہ،
ابو حاتم،
بشر بن موسیٰ،
سلمہ بن نسیب،
یعقوب بن سفیان،
محمد بن یوسف السنائی،
عبداللہ بن فضالہ،
محمد بن احمد القرشی،
احمد بن ازہر نیشاپوری،
یعقوب بن شیبہ،
محمد بن یسخر،
یوسف بن موسیٰ القطان،
اسماعیل بن سمویہ،
محمد بن یونس الکدیمی،
ہارون الحمال،
امام بخاری ان کے خاص فیض یافتہ تھے،
اور وہ اپنے استاد سے اس درجہ متاثر تھے کہ جامع صحیح میں 751 حدیثیں ان کے واسطہ سے روایت کی ہیں،
مزید برآں:
امام مسلم،
ابوداؤد،
ترمذی،
نسائی،
اورابن ماجہ نے بھی بواسطہ ان سے روایت کی ہے۔


علمی مقام:
حدیث کی طرح فقہ میں بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی۔
امام شافعی سے اس فن میں خصوصی مہارت پیدا کی۔
جب امام شافعی مصر گئے تو حمیدی بھی ان کے ساتھ رہے اس طرح وہ امام صاحب کے بکثرت اجتہاد کے امین بن گئے۔
امام شافعی کی وفات کے بعد مصر سے پھر مکہ واپس آ گئے اور وہاں مفتی و فقیہ کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔
امام شافعی فرماتے کہ میں نے الحمیدی سے بڑھ کرحافظ محدث نہیں دیکھا انہوں نے سفیان بن عیینہ سے 10000 (دس ہزار) حدیثیں نقل کیں امام احمد حنبل فرماتے ہیں:
الحمیدی ہم میں امام ہیں۔


حفظ وضبط:
حافظہ کی قوت بلا کی پائی تھی جس کی بدولت حدیث کا ایک وسیع سرمایہ ان کے دماغ میں محفوظ تھا؛ چنانچہ اہلِ نظر محققین نے مستند ذرائع سے لکھا ہے کہ امام حمیدی کو اپنے شیخ سفیان بن عیینہ کی مرویات سے دس ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں اسی باعث علامہ ابنِ سعد ان کو کثیر الحدیث لکھتے ہیں۔


ثقاہت و عدالت:
ثقہ شیوخ حدیث کے فیضان نے ان کی روایات کو بھی استناد وحجیت کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا تھا،
ماہرین فن متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ حمیدی کی مرویات اسناد کے اعتبار سے جس اعلیٰ پایہ کی ہیں،
اس کے بعد کسی بلندی کا تصور نہیں کیا جا سکتا،
حد و انتہاء ہے کہ امام بخاری نے ان ہی کی روایت سے اپنی جامع صحیح کا آغاز کیا ہے اور بقول ابن حجر وہ امام حمیدی پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ ان کی روایت ملنے کے بعد وہ کسی دوسرے کی مرویات کو خاطر میں نہ لاتے تھے ابو حاتم کا بیان ہے کہ:
«هو اثبت الناس فى ابن عيينة وهو رائيس اصحابه وهو ثقة»
امام وہ سفیان بن عیینہ کی مرویات کے بارے میں سب سے زیادہ ثبت تھے اور وہ ان کے تلامذہ کے سرخیل تھے،
اسی طرح وہ ثقہ امام تھے۔
علاوہ ازیں ابن حبان، ابو حاتم، ابن سعد اورحاکم نے بھی ان کی توثیق کی ہے۔


فقہ و افتاء:
حدیث کی طرح فقہ میں بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی،
امام شافعی سے اس فن میں خصوصی مہارت پیدا کی اورجب وہ مصر تشریف لے گئے، تو حمیدی بھی ان کے ہمراہ رہے،
اس طرح وہ امام صاحب کے بکثرت اجتہادات کے امین تھے،
مصر میں اپنے شیخ کی وفات کے بعد مکہ واپس آ گئے اور وہاں مفتی وفقیہ کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی،
حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ:
وہ مکہ میں افتاء کا مرکز بن گئے تھے،
امام بخاری نے ان سے فقہ کی بھی تحصیل کی تھی جیسا کہ حافظ ابن حجر نے نقل کیا ہے:
«جزم وكل من ترجم البخاري بان الحميدي من شيوخه فى الفقه والحديث» امام بخاری کے تذکرہ نویسوں نے بوثوق لکھا ہے کہ وہ فقہ وحدیث میں امام حمیدی کے شاگرد تھے۔
حاکم کا بیان ہے کہ حمیدی مکہ کے مشہور مفتی، فقیہ اور محدث تھے۔


اعترافِ عُلماء:
امام حمیدی کے فضل و تقدم اور بلندی شان کا اعتراف بکثرت علماء نے کیا ہے،
جن میں نہ صرف ان کے تلامذہ اور ہم عصر اہل علم ؛ بلکہ ان کے بعض شیوخ کے اسمائے گرامی بھی شامل ہیں؛ چنانچہ ربیع بن سلیمان المرادی سے مروی ہے کہ امام شافعی اکثر فرمایا کرتے:
«مارأيت صاحب بلغم احفظ من الحميدي» میں نے حمیدی سے بڑا حافظ نہیں دیکھا۔
امام احمد فرماتے ہیں:
حمیدیؒ، شافعیؒ، اور ابن راہویہ میں ہر ایک امام تھا۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ:
«كان من خيار الناس»
حاکم کہتےہیں:
«هولا هل الحجاز فى السنة كاحمد بن حنبل لاهل العراق» وہ حدیث میں اہلِ حجاز کے لیے وہی مقام رکھتے تھے،
جو عراق میں امام احمد کو حاصل تھا۔
امام بخاری شہادت دیتے ہیں کہ حمیدی حدیث میں امام تھے۔
یعقوب بن سفیان کا ارشادہے:
«حدثنا الحميدي ومالقيت انصح للاسلام واهله منه»
حمیدی نے ہم سے حدیث بیان کی اور ہم نے ان سے بڑھ کر کسی کو اسلام اورمسلمانوں کا خیر خواہ نہیں دیکھا۔


شمائل و مناقب:
زہد و ورع اورپاکبازی و نیک طینتی ان کی سیرت کے روشن پہلو ہیں،
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حد غلو تک متبع تھے اور غالباً اسی باعث اہل رائے کو ناپسند فرماتے تھے،
عقائد و نظریات اصول السنہ کے نام سے امام حمیدی کا ایک مختصر رسالہ پایا جاتا ہے،
اس کے مطالعہ سے ان کے بعض عقائد اور مسلک پر بڑی وضاحت سے روشنی پڑتی ہے،
یہ رسالہ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نے اپنی مسند کے آخر میں شامل کر دیا ہے،
ذیل میں ہم اسی سے حمیدی کے مذہبی خیالات اخذ کر کے درج کرتے ہیں:
عقیدۂ قدر کے بارے میں فرماتے ہیں:
ہمارے نزدیک سنتِ ثابتہ یہ ہے کہ انسان خیر و شر اور تلخ و شیریں کے بارے میں تقدیر پر کامل ایمان رکھے اور یہ یقین رکھے کہ ہر راحت و مصیبت اللہ جل شانہ کے فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے۔
ایمان کے متعلق کہتے ہیں،
وہ قول و عمل دونوں کا نام ہے جس میں کمی و بیشی ہوتی ہے،
قول بغیر عمل کے بیکار ہے،
اور قول و عمل بغیر نیت کے غیر مفید ہیں،
اسی طرح اگر قول عمل اور نیت سب ہو لیکن اتباعِ سنت نہ ہو تو اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں۔
سفیان بن عیینہ فرمایا کرتے تھے:
«الايمان قول وعمل يزيد وينقص»
ان کے بھائی ابراہیم بن عیینہ نے کہا:
اے ابو محمد یہ نہ کہیے کہ ایمان میں کمی ہوتی ہے،
یہ سن کر حضرت سفیان غضبناک ہو گئے اور فرمایا،
اے لڑکے! تم خاموش رہو،
ایمان یقیناً کم ہوتا ہے،
یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔
فرمایا:
قرآن پاک اللہ کا کلام ہے جو شخص اسے مخلوق کہتا ہے وہ بدعتی ہے۔
فرمایا:
صحابہ کرام کا احترام نہایت ضروری ہے،
ہر مومن کو ان کے لیے استغفار و دعا کرتے رہنا چاہیے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے:
«وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ» [الحشر: 10]
اور جو ان کے بعد آئے دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے اورہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں،
گناہ معاف فرما، اس میں مسلمانوں کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا ہے،
پس جو کوئی ان کو بُرا بھلا کہے وہ سنت سے منحرف ہے اور ایسا شخص مالِ غنیمت سے محروم کر دیا جائے گا۔


وفات:
ربیع الاول 219ھ میں اپنے وطن مکہ ہی میں رحلت فرمائی،
سالِ وفات 220ھ بھی بیان کیا جاتا ہے،
لیکن اکثر نے اول الذکر ہی کو اختیار کیا ہے۔


تصنیفات:
رسالہ اصول السنہ کے علاوہ امام حمیدی کی کئی اور تصانیف کے نام بھی ملتے ہیں جو یہ ہیں:
1۔ کتاب الرد علی النعمان
2۔ کتاب التفسیر
3۔ مسند
مسند: یہ امام حمیدی کی سب سے زیادہ مشہور کتاب ہے جس نے انہیں علم حدیث کی تاریخ میں ایک زندہ جاوید مقام عطا کیا ہے،
مختلف ممالک میں مسانید کے مجموعے مرتب کرنے میں جن علماء کو شرف اولیت حاصل ہو اان میں حمیدی کانام بھی ہے،
کہا جاتا ہے کہ مکہ میں سب سے پہلے ان ہی نے مسند تصنیف کی،
یہ گیارہ اجزاء پر مشتمل ہے 27 اور اس میں 1293 حدیثیں ہیں،
اکثر روایتیں مرفوعاً مروی ہیں اور صحابہ وتابعین کے کچھ آثار بھی اس میں شامل ہیں۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے مسند حمیدی کا آغاز جابر بن عبداللہ کی حدیث کو قرار دیا ہے،
لیکن یہ واقعہ کے خلاف ہے،
بقول مولانا اعظمی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے کسی غیر مستند نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے ایسا لکھ دیا ہے ورنہ جیسا کہ مسند سے ظاہر ہے،
حضرت ابو بکر صدیق کی حدیث سے اس کا آغاز ہوا ہے اور یہی تمام ارباب مسانید کا طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ پہلے خلفائے راشدین کی علی الترتیب روایات نقل کرتے ہیں،
اس کے بعد عشرہ مبشرہ صحابہ کی حدیثیں اس کے بعد دوسروں کی،
امام حمیدی نے اسی سنت کی اتباع کی ہے۔
مسند کے نسخے ایک زمانہ تک نایاب رہے پھر مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے جو قدیم کتب کی تلاش وتحقیق اور تصحیح و تحشیہ میں شہرت رکھتے ہیں اور جنہوں نے اس سلسلہ کے کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں،
مسند کے کئی مخطوطات کا پتہ چلایا جو دارالعلوم دیوبند مکتبہ سعیدیہ، حیدرآباد جامعہ عثمانیہ اور دارالکتب الظاہر یہ دمشق میں محفوظ تھے۔
ان ہی قلمی نسخوں کی مدد سے مولانا اعظمی نے 1963ء میں پہلی بار مسند حمیدی کو دو جلدوں میں اڈٹ کیا ہے اور مجلس العلمی کراچی سے ان کی اشاعت ہوئی،
دوسری جلد کے آخر میں رسالہ اصول السنہ بھی شامل ہے۔


مسند کے رواۃ:
مسند کو امام حمیدی سے بکثرت علماء نے روایت کیا ہے،
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابو اسماعیل السلمی (280ھ) اور بشر بن موسیٰ الاسدی کا نام ذکر کرنے کے بعد «رواة غير واحد» لکھ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مسند کے اور بھی بہت سے رواۃ ہیں۔
لیکن آج جو مسند ہمارے سامنے موجود ہے وہ امام بشر بن موسیٰ الاسدی سے مروی ہے،
اس کے علاوہ کسی دوسرے کی روایت کردہ مسند کا اب تک سراغ نہیں لگ سکا ہے،
ذیل میں بشر کا مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے:
بشر نام، ابو علی کنیت، اور نسب نامہ یہ ہے، بشر بن موسیٰ بن صالح بن شیخ بن عمیرہ بن حبان بن سراقہ بن مرثد بن حمیری 190ھ میں پیدا ہوئے،
وطن مالوف بغداد تھا،
بنواسد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے،
جو فضل وتقدم، امارت و ریاست اور شرافت میں بہت مشہور اور ترقی یافتہ خاندان تھا اور حقیقت یہ ہے کہ امام بشر تمام خاندانی خصوصیات کے امین تھے۔
امام بشر نے ابو نعیم فضل بن دکین،
روح بن عبادہ،
خلاد بن یحییٰ،
ہوذہ بن خلیفہ،
عبداللہ بن الزبیر الحمیدی،
حسن بن موسیٰ الاشیب،
علی بن الجعد،
اصمعی،
سعید بن منصور،
خلف بن الولید اور عمر بن الحکام وغیرہ مشاہیر اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اوران کے جملہ کمالات کو اپنے سینے میں منتقل کیا،
یہاں تک کہ ان کی جلالتِ مرتبت کی بنا پر امام احمد بن حنبل بھی بایں ہمہ تبحر و فضل ان کی توقیر و تکریم کرتےتھے۔
دارقطنی کا بیان ہے:
«بشر بن موسيٰ الاسدي ثقة نبيل بشر بن موسيٰ الاسدي ثقه»
اورشریف انسان تھے۔
علامہ ابن الجوزی رقم طراز ہیں:
«كان هو فى نفسه ثقة امينا عاقلا ركينا»
وہ بذاتِ خود نہایت ثقہ امین اوربہت عقلمند تھے۔
26، ربیع الاول 288ھ بروز شنبہ ان کی شمع بغداد میں گل ہو گئی،
مقبرہ باب البتن میں تدفین ہوئی،
جنازہ میں ایک جمعِ غفیر شریک تھا کہا جاتا ہے کہ امام بشر آخر زندگی میں اپنی پیری اور ضعف کے بارے میں اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے:
«ضعفت ومن جاز الثمانين يضعف وينكرمنه كل ماكان يعرف ويمشي رويدًا كالا سير مقيدًا تداني خطاه فى الحديد ويرسف»