مقدمۃ:​

مقدمۃ:
«بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم وَبِه نستعين .»
«الْحَمد لله، ونحمده وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمن سيئات أَعمالنَا، من ييهده اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ. وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ شَهَادَةً تَكُونُ لِلنَّجَاةِ وَسِيلَةً، وَلِرَفْعِ الدَّرَجَاتِ كَفِيلَةً، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، الَّذِي بَعثه وطرق الْإِيمَانِ قَدْ عَفَتْ آثَارُهَا، وَخَبَتْ أَنْوَارُهَا، وَوَهَنَتْ أَرْكَانهَا، وَجَهل مَكَانهَا، فشيد صلوَات الله وسلامة عَلَيْهِ من معالمها مَا عَفا، وشفى من الغليل فِي تَأْيِيدِ كَلِمَةِ التَّوْحِيدِ مَنْ كَانَ عَلَى شفى، وأوضح سَبِيل الهادية لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْلُكَهَا، وَأَظْهَرَ كُنُوزَ السَّعَادَةِ لِمَنْ قَصَدَ أَنْ يَمْلِكَهَا.
أَمَّا بَعْدُ؛ فَإِنَّ التَّمَسُّكَ بِهَدْيهِ لَا يَسْتَتِبُّ إِلَّا بِالِاقْتِفَاءِ لِمَا صَدَرَ مِنْ مِشْكَاتِهِ، وَالِاعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللَّهِ لَا يَتِمُّ إِلَّا بِبَيَانِ كَشْفِهِ، وَكَانَ كِتَابُ الْمَصَابِيحِ - الَّذِي صَنَّفَهُ الْإِمَامُ مُحْيِي السُّنَّةِ، قَامِعُ الْبِدْعَةِ، أَبُو مُحَمَّد الْحُسَيْن بن مَسْعُود الْفراء الْبَغَوِيُّ، رَفَعَ اللَّهُ دَرَجَتَهُ - أَجْمَعَ كِتَابٍ صُنِّفَ فِي بَابِهِ، وَأَضْبَطَ لِشَوَارِدِ الْأَحَادِيثِ وَأَوَابِدِهَا. وَلَمَّا سلك - رَضِي الله عَنهُ - طَرِيق الِاخْتِصَارَ، وَحَذَفَ الْأَسَانِيدَ؛ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ النُّقَّادِ، وَإِنْ كَانَ نَقْلُهُ - وَإِنَّهُ مِنَ الثِّقَاتِ - كَالْإِسْنَادِ، لَكِنْ لَيْسَ مَا فِيهِ أَعْلَامٌ كالأغفال، فاستخرت الله تَعَالَى، واستوفقت مِنْهُ، فأعلمت مَا أغفله، فأودعت كل حَدِيث مِنْهُ فِي مقره كَمَا رَوَاهُ الْأَئِمَّة المنقنون، وَالثِّقَاتُ الرَّاسِخُونَ؛ مِثْلُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيِّ، وَأَبِي الْحُسَيْنِ مُسْلِمِ بْنِ الْحَجَّاجِ الْقُشَيْرَيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ الْأَصْبَحِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّد بن حَنْبَل الشَّيْبَانِيّ، وَأبي عِيسَى مُحَمَّد بن عِيسَى التِّرْمِذِيِّ، وَأَبِي دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَشْعَثِ السِّجِسْتَانِيِّ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَحْمَدَ بْنِ شُعَيْبٍ النَّسَائِيِّ، وَأبي عبد الله مُحَمَّد بن يزِيد بن مَاجَهْ الْقَزْوِينِيِّ، وَأَبِي مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيِّ، وَأَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ عمر الدَّارَقُطْنِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ أَحْمَدَ بْنِ الْحُسَيْنِ الْبَيْهَقِيِّ، وَأَبِي الْحَسَنِ رَزِينِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْعَبْدَرِيِّ، وَغَيْرِهِمْ وَقَلِيلٌ مَا هُوَ.
وَإِنِّي إِذَا نَسَبْتُ الْحَدِيثَ إِلَيْهِمْ كَأَنِّي أَسْنَدْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم؛ لأَنهم قدفرغوا مِنْهُ، وَأَغْنَوْنَا عَنْهُ. وَسَرَدْتُ الْكُتُبَ وَالْأَبْوَابَ كَمَا سَرَدَهَا، وَاقْتَفَيْتُ أَثَرَهُ فِيهَا، وَقَسَّمْتُ كُلَّ بَابٍ غَالِبًا عَلَى فُصُولٍ ثَلَاثَةٍ:
أَوَّلُهَا: مَا أَخْرَجَهُ الشَّيْخَانِ أَوْ أَحَدُهُمَا، وَاكْتَفَيْتُ بِهِمَا وَإِنِ اشْتَرَكَ فِيهِ الْغَيْرُ؛ لِعُلُوِّ دَرَجَتِهِمَا فِي الرِّوَايَةِ.
وَثَانِيهَا: مَا أَوْرَدَهُ غَيْرُهُمَا مِنَ الْأَئِمَّةِ الْمَذْكُورِينَ. وَثَالِثُهَا: مَا اشْتَمَلَ عَلَى مَعْنَى الْبَابِ مِنْ محلقات مُنَاسِبَةٍ مَعَ مُحَافَظَةٍ عَلَى الشَّرِيطَةِ، وَإِنْ كَانَ مَأْثُورًا عَنِ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ. ثُمَّ إِنَّكَ إِنْ فَقَدْتَ حَدِيثًا فِي بَابٍ؛ فَذَلِكَ عَنْ تَكْرِيرٍ أُسْقِطُهُ. وَإِنْ وَجَدْتَ آخَرَ بَعْضَهُ مَتْرُوكًا عَلَى اخْتِصَارِهِ، أَوْ مَضْمُومًا إِلَيْهِ تَمَامُهُ؛ فَعَنْ دَاعِي اهْتِمَامٍ أَتْرُكُهُ وَأُلْحِقُهُ. وَإِنْ عَثَرْتَ عَلَى اخْتِلَافٍ فِي الْفَصْلَيْنِ مِنْ ذِكْرِ غَيْرِ الشَّيْخَيْنِ فِي الْأَوَّلِ، وَذِكْرِهِمَا فِي الثَّانِي؛ فَاعْلَمْ أَنِّي بَعْدَ تتبعي كتابي الْجمع بَين الصحيحن لِلْحُمَيْدِيِّ، وَ جَامِعَ الْأُصُولِ ؛ اعْتَمَدْتُ عَلَى صَحِيحَيِ الشَّيْخَيْنِ وَمَتْنَيْهِمَا.
وَإِنْ رَأَيْتَ اخْتِلَافًا فِي نَفْسِ الْحَدِيثِ؛ فَذَلِكَ مِنْ تَشَعُّبِ طُرُقِ الْأَحَادِيثِ، وَلَعَلِّي مَا أطلعت على تِلْكَ الرِّوَايَة التس سَلَكَهَا الشَّيْخُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. وَقَلِيلًا مَا تَجِدُ أَقُولُ: مَا وَجَدْتُ هَذِهِ الرِّوَايَةَ فِي كتب وَجَدْتُ خِلَافَهَا فِيهَا. فَإِذَا وَقَفْتَ عَلَيْهِ فَانْسِبِ الْقُصُورَ إِلَيَّ لِقِلَّةِ الدِّرَايَةِ، لَا إِلَى جَنَابِ الشَّيْخِ رَفَعَ اللَّهُ قَدْرَهُ فِي الدَّارَيْنِ، حَاشَا لِلَّهِ مِنْ ذَلِكَ. رَحِمَ اللَّهُ مَنْ إِذَا وَقَفَ عَلَى ذَلِكَ نَبَّهَنَا عَلَيْهِ، وَأَرْشَدَنَا طَرِيقَ الصَّوَابِ. وَلَمْ آلُ جُهْدًا فِي التَّنْقِيرِ وَالتَّفْتِيشِ بِقَدْرِ الْوُسْعِ وَالطَّاقَةِ، وَنَقَلْتُ ذَلِكَ الِاخْتِلَافَ كَمَا وجدت. وَمَا أَشَارَ إِلَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ غَرِيبٍ أَوْ ضَعِيفٍ أَوْ غَيْرِهِمَا؛ بَيَّنْتُ وَجْهَهُ غَالِبًا، وَمَا لَمْ يُشِرْ إِلَيْهِ مِمَّا فِي الْأُصُولِ؛ فَقَدْ قَفَّيْتُهُ فِي تَرْكِهِ، إِلَّا فِي مَوَاضِع لغَرَض. وَرُبمَا تَجِد مَوَاضِع مهملهة، وَذَلِكَ حَيْثُ لم أطلع على رِوَايَة فَتَرَكْتُ الْبَيَاضَ، فَإِنْ عَثَرْتَ عَلَيْهِ فَأَلْحِقْهُ بِهِ، أَحْسَنَ اللَّهُ جَزَاءَكُ. وَسَمَّيْتُ الْكِتَابَ. بِ مِشْكَاةِ الْمَصَابِيحِ
وَأَسْأَلُ اللَّهَ التَّوْفِيقَ وَالْإِعَانَةَ وَالْهِدَايَةَ وَالصِّيَانَةَ، وَتَيْسِيرَ مَا أَقْصِدُهُ، وَأَنْ يَنْفَعَنِي فِي الْحَيَاةِ وَبَعْدَ الْمَمَاتِ، وَجَمِيعَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ. حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ. وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ.»


سب تعریف اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے ہم سب اس کی خوبی بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں، اور اس سے بخشش طلب کرتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں اور اپنے برے عملوں سے اللہ ہی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس کو اللہ نے ہدایت د ے دی ہے۔ اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور جس کو اللہ نے گمراہ کر دیا ہے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، اور میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ایسی گواہی جو نجات کا ذریعہ اور درجات کی بلندی کے لیے ضامن ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ یقینا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے وہ رسول ہیں جن کو ایسی حالت میں دنیا میں بھیجا، جبکہ ایمان کے راستوں کے نشانات مٹ چکے تھے اور ایمانی راہوں سے روشنی (بھی) بجھ چکی تھی، اور اس کے ارکان مضمحل و کمزور ہو چکے تھے اور ان کا مکان اور مرتبہ نا معلوم ہو گیا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کے مٹے ہوئے نشانات کو بلند اور مضبوط کر دیا اور کلمہ توحید کی تائید میں اس بیمار کو (جو کفر و شرک کی گمراہی میں پڑ کر) موت کے کنارے پہنچ چکا تھا، شفا بخشی اور آپ نے ہدایت کے راستہ کو اس شخص کے لیے کھول دیا جو اس پر چلنا چاہے اور نیکی کے خزانوں کو آپ نے اس کے لیے ظاہر فرما دیا جو اس کا مالک بننا چاہے۔

حمد و صلوۃ کے بعد یہ معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے راستہ کی پیروی اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ اس چیز کی پوری پوری فرمانبرداری نہ کی جائے جو آپ کے سینہ مبارک سے صادر اور ظاہر ہوئی ہے، لیکن آپ کی احادیث کی جب پوری طور پر تابعداری کی جائے تب اتباع کا دعویٰ صحیح ہو سکتا ہے، اور اللہ کی اس کتاب پر پورا اعتصام و اعتماد کامل نہیں ہو سکتا مگر آپ کے بیان و تشریح و تفسیر کے ساتھ یعنی قرآن مجید پر اسی وقت عمل ہو سکتا ہے جبکہ آپ کی صحیح حدیثوں پر عمل کیا جائے۔

جو کتابیں حدیث کے بارے میں لکھی گئی ہیں ان سب میں المصابیح اپنے موضوع پر ایک جامع کتاب تھی جس میں مختلف حدیثوں کو یکجا جمع کر دیا گیا تھا اور اس کتاب المصابیح کے مؤلف سنت کے زندہ کرنے والے اور بدعت کے مٹانے والے امام ابومحمد حسین بن مسعود الفراء البغوی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرے چونکہ مصنف رحمہ اللہ نے اس مصباح میں اختصار کے راستہ کو اختیار کیا اور سندوں کو حذف فرما دیا ہے اس لیے حدیث کے بعض پرکھنے اور جانچ پڑتال کرنے والوں نے اعتراض کیا کہ صحابی اور کتاب کے حوالہ کے چھوڑ دینے سے صحیح و ضعیف نہیں معلوم ہوتی ہے اور نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث کس کتاب میں ہے اور بغیر سند اور بغیر حوالہ کتاب کے عام طور پر لوگ حدیث کا اعتبار نہیں کرتے ہیں یہ (گو ہم تسلیم کرتے ہیں حضرت مولف رحمہ اللہ ثقہ اور سچے عالموں میں سے ہیں اور ان کا بغیر سند کے بیان کر دینا گویا سند کے ساتھ بیان کر دینا ہے لیکن نشان اور پتے والی چیز بےنشان اور بے پتے کی طرح نہیں ہو سکتی ہے) اور پتہ اور بغیر پتہ دونوں برابر ہیں اس لیے معترضین کا اعتراض درست تھا، میں نے ان معترضین کے اعتراض کو ملحوظ نظر رکھ کہ اس کتاب مصابیح کے دوبارہ ترتیب دینے کا ارادہ کر لیا، اور اس کام کے لیے میں نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا اور اس سے اس کی توفیق چاہی، (چنانچہ اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی اور اسی کی توفیق و اعانت سے) میں نے بے نشان والی حدیثوں کو نشان والی بنا دیا اور متروک صحابی و کتاب کا نام ظاہر کر دیا، اور ہر حدیث کو اس کے ٹھکانے پر رکھ دیا جس طرح حدیث کے ان اماموں نے روایت کیا ہے جو نہایت مستحکم و مضبوط اور ثقہ تھے، دیانتدار و صاحب امانت تھے، جیسے ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری اور ابو حسین مسلم بن الحجاج قشیری اور ابوعبداللہ امام مالک بن انس اور ابوعبداللہ محمد بن ادریس الشافعی، اور ابوعبد اللہ امام احمد بن حنبل الشیبانی اور ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، ابوداؤد سلیمان بن الاشعب السجستانی اور ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب النسائی اور ابوعبد اللہ محمد بن یزید بن ماجہ القزوینی، اور ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی اور ابو حسن علی بن عمر الدارقطنی اور ابوبکر احمد بن حسین البیہقی اور ابو الحسن رزین بن معاویہ العبدری وغیرہم ان کے نام حدیث کے آخر میں لکھ دیے ہیں اور کتاب کا حوالہ بھی ساتھ دے دیا ہے، اور جب میں کسی حدیث کو ان اماموں کی طرف منسوب کروں اور یہ کہوں کہ اس حدیث کو مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، تو گویا میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے (یعنی کسی حدیث کے ساتھ ان مذکورہ ائمہ کا نام لے لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس حدیث کی سند ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ہے اور یہ حدیث متصل اور مستند ہے کیونکہ ان بزرگوں نے سند سے فراغت حاصل کر لی ہے اور ہم کو اس سے بے نیاز کر دیا ہے تو اس لیے ہم نے پوری سند کو حذف کر دیا ہے، شروع حدیث میں اس صحابی کا نام ذکر کر دیا ہے جس سے وہ حدیث مروی ہے اور آخر میں ان بزرگوں کا نام لے لیا ہے (جنہوں نے اپنی اپنی کتابوں میں اس حدیث کو بیان فرمایا ہے)، جس طرح مصابیح کے مولف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مصابیح کو ابواب اور کتب پر منقسم کیا ہے، میں نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اور میں نے اس معاملہ میں ان کے نقش قدم کی پیروی کی ہے یعنی میں نے بھی مشکو ہ کو ابواب و کتب فصل پر مرتب کیا ہے) پہلے ایک باب منعقد کیا ہے اور ہر باب کو اکثر تین فصلوں پر منقسم کیا ہے، پہلی فصل میں وہ حدیثیں ہیں جن کو شیخین امام بخاری و امام مسلم دونوں نے یا ان دونوں میں سے کسی ایک نے بیان کیا ہے اور:
اس پہلی فصل میں انہیں دونوں اماموں کی حدیثوں پر اکتفاء کیا ہے اگرچہ اس حدیث میں دوسرے حضرات بھی شریک ہیں اس لیے کہ دونوں بزرگوں کا درجہ حدیث میں تمام محدثین سے اونچا ہے،
اور دوسری فصل میں وہ حدثیں جمع کی گئی ہیں جن کو ان دونوں بزرگوں امام بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر محدثین مذکورین نے روایت کیا ہے،
اور تیسری فصل میں وہ حدیثیں بیان کی گئی ہیں جو اس باب کے موافق اور اس کے مناسب تھیں، خواہ سلف (صحابی) سے منقول ہوں یا خلف تابعیں سے مروی ہوں مگر حدیث کے شرائط کا اس میں بھی لحاظ رکھا جائے گا۔ پھر اگر تم مصابیح کی کوئی حدیث میری اس کتاب مشکوۃ میں نہ پاؤ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے مکرر پانے کی وجہ سے میں نے حذف کر دیا ہے، دوبارہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور اگر تم کچھ ایسی حدیثیں پاؤ جن کا کچھ حصہ میری کتاب مشکوۃ میں درج نہیں، بلکہ اس میں اختصاراً چھوڑ دیا گیا ہے یا وہ حصہ مصابیح میں موجود نہیں ہے اور یہاں مشکوۃ میں پورا ملا دیا گیا ہے، تو یہ حذف و الحاق و اضافہ کسی خاص ضرورت کے ماتحت کیا گیا ہے یعنی اس جگہ کوئی امر ترک باالحاق کا باعث ہو گا۔ اختصار کی یہ وجہ ہے کہ لمبی حدیث کا خاص کر وہ حصہ باب کے مناسب ہے اور باقی حصہ مناسب نہیں ہے یا اس حدیث کا ایک جز اس باب کے مناسب ہے اور دوسرے باب کے مناسب نہیں ہو تو جس جگہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو گی، اس جگہ حدیث مختصر بیان ہو گی اور جہاں ان دونوں میں سے کوئی چیز نہیں ہو گی وہاں پوری حدیث بیان کی جائے گی۔

اور اگر تمہیں دونوں فصلوں میں اختلاف نظر آئے کہ پہلی فصل میں شیخین کے علاوہ دوسرے محدثین کی حدیث پائی جا رہی ہے (حالانکہ پہلی فصل صرف شیخین ہی کی حدیث کے لیے مخصوص ہے) اور دوسری فصل میں شیخین کی حدیث پائی جا رہی ہے (تو یہ خلاف ہے کیونکہ دوسری فصل میں شیخین کی حدیث نہیں بیان ہونی چاہیے)) تو تم اس بات کو جان لو (کہ یہ اختلاف سہو و نسیان سے نہیں ہوا ہے) بلکہ حضرات شیخین کی حدیثوں کو، حمیدی کی کتاب جمع بین الصحیحین اور جامع الأصول اور شیخین کی صحیحین (بخاری، مسلم) میں تلاش کرنے کے بعد میں نے شیخین کی صحیحین اور ان کے متن پر اعتماد کیا ہے اور اگر نفس حدیث میں اختلاف دیکھو (کہ مشکوۃ میں حدیث کے اور الفاظ ہیں اور مصابیح میں اور الفاظ ہیں) تو یہ اختلاف حدیث کی مختلف سندوں کی وجہ ہے (مصابیح کے مؤلف کو جن لفظوں سے وہ حدیث ملی ہے انہوں نے اسی لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور مشکوۃ کے مؤلف کو وہ دوسرے لفظوں کے ساتھ ملی ہے اس لیے مشکوۃ والے نے اس کو دوسرے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے) اور ممکن ہے مصابیح کے مؤلف کے لائے ہوئے طریقے سے میں ناواقف ہوں (اس لیے اس بےخبری کی وجہ سے دوسرے طریقے سے ذکر کر دیا ہے) اور میری کتاب مشکوۃ میں تم اس قسم کے الفاظ بہت پاؤ گے کہ جو روایت مصابیح کے مؤلف نے درج کی ہے، اس کو میں نہیں پاتا یا اس کے خلاف پایا ہے اور اگر تم اس اختلاف پر واقف ہو جاؤ تو اس کوتاہی اور قصور کو میری طرف منسوب کرنا، اپنی کم مائیگی اور کمزوری کی وجہ سے یعنی اس تسامح کو میری طرف منسوب کیا جائے، مصابیح کے مؤلف کی طرف اس کمزوری کو نہ منسوب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے کو دونوں جہان میں بلند کرے۔ اللہ کی ذات کے لیے پا کی ہے، اور جو صاحب میری اس غلطی پر واقف ہو جائیں (تو میری زندگی میں) مجھے متنبہ اور آگاہ فرما دیں اور سیدھا راستہ مجھے بتا دیں اور میرے مرنے کے بعد کتاب مشکوۃ میں یا اس کے حاشیہ میں تحریر فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمتوں سے نوازے گا، اور بحث کرید اورتحقیق و تفتیش میں اپنی وسعت اور طاقت کے مطابق کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی۔ جس طرح پایا تھا اسی طرح اس اختلاف کو میں نے نقل کر دیا ہے۔
مصابیح کے مصنف نے جن حدیثوں کو غریب یا ضعیف وغیرہما کی طرف اشارہ کیا ہے، میں نے اپنی کتاب مشکلوۃ میں اس کے ضعف وغیرہ کے سبب کو اکثر بیان کر دیا ہے اور جن حدیثوں میں اصول حدیث کے مطابق اشارہ نہیں کیا ہے تو میں نے بھی اس کے نہ بیان کرنے میں مؤلف مصابیح کی اقتداء کی ہے اور اس کا تذکرہ چھوڑ دیا ہے لیکن بعض جگہوں میں کسی خاص مصلحت یا غرض سے اس حدیث کی بعض کیفیت کو بیان کر دیا ہے، اور بعض بعض جگہ حدیث کے آخر میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں پاؤ گے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی کا مجھے پتہ نہیں چلا تو (حوالہ کی جگہ) سفیدی چھوڑ دی ہے، یعنی سفید کاغذ اس جگہ چھوڑ دیا کچھ لکھا نہیں ہے، اگر تم کو اس کا پتہ چل جائے تو تم اس (بیاض کی جگہ) اس حوالہ کو لکھ دو، اللہ تعالیٰ تم کو اس کا اچھا بدلہ دے اور میں نے کتاب کا نام مشکوۃ المصابیح رکھا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ اس کتاب کی تکمیل کی توفیق مرحمت فرمائے اور میری اعانت فرمائے اور میری صحیح رہنمائی کرے اور غلطیوں سے مجھے بچائے اور میرے ارادوں کو آسان کر دے اور میں اللہ سے اس کا یہی سوال کرتا ہوں کہ میری زندگی اور میرے مرنے کے بعد مجھے اس تالیف کے ذریعہ سے نفع پہنچائے اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کو بھی اس کتاب سے فائدہ عنایت فرمائے۔ اللہ ہی میرے لیے کافی ہے اور وہ بہت کام بنانے والا اور گناہوں سے باز رہنے کی قوت اور نیکی کرنے کی طاقت نہیں ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی اعانت و توفیق ہی سے جو نہایت زبردست غالب حکمت والا ہے۔
«حسبى الله ونعم الوكيل لا حول ولا قوة إلا بالله العزيز الحكيم»