تفسیر القرآن الکریم

سورة الأعراف
فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَائِبِينَ[7]
پھر یقینا ہم ان کے سامنے ضرور پورے علم کے ساتھ بیان کریں گے اور ہم کہیں غائب نہ تھے۔[7]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 7) فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِمْ بِعِلْمٍ: یعنی ہم سب کچھ سن رہے تھے اور دیکھ رہے تھے اور ان کے عمل کے وقت غائب نہیں تھے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۶۱) اور سورۂ مجادلہ (۶، ۷) اگر وہ خاموش رہیں گے یا غلط بات کریں گے تو ہم خود پورے علم کے ساتھ بتا دیں گے، یعنی دلیل بھی ساتھ ہو گی کہ خود ان کے اعضاء گواہی دیں گے۔ [ یٰسٓ: ۶۵۔ حٰمٓ السجدۃ: ۱۹ تا ۲۱ ] زمین گواہی دے گی۔ [الزلزال: ۴ ] امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دے گی۔ [ البقرۃ: ۱۴۳ ] اور جہنم کے داروغے کے سامنے وہ خود اپنی زبان سے مان جائیں گے۔ [ الزمر: ۷۱۔ الملک: ۱۰ ] بِعِلْمٍ تنوین کی وجہ سے پورے علم ترجمہ کیا ہے۔