تفسیر القرآن الکریم

سورة العلق
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ[2]
اس نے انسان کو ایک جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔[2]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 2) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ: رحم میں قرار پکڑنے کے بعد نطفہ سب سے پہلے علقہ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ عَلِقَ يَعْلَقُ (س) چمٹنے کوکہتے ہیں۔ عَلَقَةٌ جما ہوا خون، جو رحم کی دیوار کے کسی حصے سے چپک جاتا ہے۔ علقہ کا دوسرا معنی جونک ہے، وہ بھی کسی نہ کسی کو چمٹ جاتی ہے۔ خون کی وہ پھٹکی شکل و صورت میں جونک سے ملتی جلتی ہوتی ہے، اس میں نہ جان ہوتی ہے نہ شعور اور نہ عقل و علم۔ پھر اللہ تعالیٰ اس حقیر سی پھٹکی سے انسان جیسی عظیم مخلوق پیدا فرما دیتا ہے۔