تفسیر القرآن الکریم

سورة المرسلات
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ[48]
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جھک جاؤ تو وہ نہیں جھکتے۔[48]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 49،48) وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ ارْكَعُوْا …: رکوع کا معنی جھکنا یعنی اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے اور رکوع بول کر نماز بھی مراد لی جاتی ہے، کیونکہ رکوع اس کا ایک حصہ ہے، یعنی ان مکذبین کے جھٹلانے کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی وہ نماز پڑھنے پر آمادہ ہیں، یہی کبر ان کے انکار کا باعث بن گیا ہے، جس طرح شیطان کے لیے بنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا اصل اللہ کے سامنے جھک جانا ہے اور کفر کا اصل اللہ کے سامنے جھکنے سے انکار ہے اور ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن بہت بڑی خرابی اور بربادی ہے۔