تفسیر القرآن الکریم

سورة الصافات
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ[140]
جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ کر گیا۔[140]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 140) اِذْ اَبَقَ: أَبَقَ (ض، ن، س) إِبَاقًا وَ أَبْقًا وَ أَبَقًا، الْعَبْدُ غلام کے اپنے مالک کے پاس سے بھاگ جانے کو کہتے ہیں۔ یونس علیہ السلام چونکہ اپنے مالک (اللہ تعالیٰ) کے حکم کا انتظار کیے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، اس لیے ان کے جانے کے لیے اَبَقَ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ یونس علیہ السلام اپنی قوم کو کب اور کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے؟ اس کے لیے دیکھیے سورۂ یونس (۹۸) اور سورۂ انبیاء (۸۷)۔

اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ: بھری ہوئی کشتی سے مراد سامان اور مسافروں سے بھری ہوئی کشتی ہے۔