تفسیر القرآن الکریم

سورة النور
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ[31]
اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے، یا اپنے باپوں، یا اپنے خاوندوں کے باپوں، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں، یا اپنے بھتیجوں، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی عورتوں (کے لیے)، یا (ان کے لیے) جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں، یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے جو شہوت والے نہیں، یا ان لڑکوں کے لیے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے اور اپنے پائوں (زمین پر) نہ ماریں، تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔[31]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 31) وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ …: عورتوں کو بھی اسی طرح اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم فرمایا جیسے مردوں کو یہ حکم دیا، مگر عورتوں پر مردوں کو نہ دیکھنے کی اتنی سختی نہیں جتنی مردوں پر عورتوں کے دیکھنے کے بارے میں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی چادر کے ساتھ مجھے پردے میں لیے ہو ئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی، وہ (برچھوں کے ساتھ) کھیل رہے تھے، یہاں تک کہ میں ہی اکتا جاتی، تو ایک نو عمر لڑکی کا اندازہ کر لو جو کھیل دیکھنے کی شوقین ہو۔ [ بخاري، النکاح، باب نظر المرأۃ إلی الحبش…: ۵۲۳۶ ] یعنی اندازہ لگا لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے کتنی دیر کھڑے رہے ہوں گے۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا کو ان کے خاوند نے تیسری طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: ام شریک کے گھر رہ کر عدت گزارو۔ پھر فرمایا: اس عورت کے پاس میرے صحابہ کثرت سے آتے ہیں (کیونکہ وہ مال دار اور بہت مہمان نواز خاتون تھی)، اس لیے تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا آدمی ہے، تم اپنے کپڑے بھی نیچے رکھ سکو گی۔ [ مسلم، الطلاق، باب المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا: 1480/38 ] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر شہوانی خیال نہ ہو تو عورتیں مردوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ پردے کا حکم عورتوں کو ہے، تاکہ مرد انھیں نہ دیکھیں، مردوں کو نہیں کہ عورتیں انھیں نہ دیکھیں۔ البتہ اگر شہوت کے ساتھ ہو تو عورتوں کو بھی مردوں کی طرف دیکھنا حرام ہے، جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے۔

➋ سنن ابی داؤد اور بعض دوسری کتب احادیث میں ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میمونہ رضی اللہ عنھا بھی تھیں تو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور یہ واقعہ ہمیں حجاب کا حکم ہونے کے بعد کا ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے حجاب کرو۔ ہم نے کہا: یا رسول اللہ! کیا یہ نابینا نہیں کہ نہ ہمیں دیکھتا ہے، نہ ہمیں پہچانتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أَ فَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا؟ أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ! ] [ أبوداوٗد، اللباس، باب في قولہ عزوجل: «و قل للمؤمنات …» ‏‏‏‏: ۴۱۱۲ ] تو کیا تم بھی اندھی ہو؟ کیا تم اسے نہیں دیکھتیں! اس حدیث سے عورتوں کا آنکھوں والے مردوں کو ہی نہیں نابینا مردوں کو دیکھنا بھی منع ثابت ہوتا ہے، مگر امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی خصوصیت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا کو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا۔ ہمارے ایک شیخ اس کی یہ توجیہ فرماتے تھے کہ نابینا آدمی اپنے ستر کا خیال نہیں رکھ سکتا، نہ اسے اپنا ستر کھلنے کا پتا چل سکتا ہے، اس لیے اس سے حجاب کا حکم دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں، چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں ایک راوی نبہان مولیٰ ام سلمہ ہے، اسے تقریب میں مقبول کہا گیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب کے مقدمہ میں خود فرمایا ہے کہ جس راوی کے متعلق وہ مقبول کہیں، اگر کسی حدیث میں اس کی متابعت ہو تو وہ مقبول ہے، ورنہ لین الحدیث ہے۔ اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر بتخریج ابن کثیر ]

وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا: چونکہ مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَا تَرَكْتُ بَعْدِيْ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ] [بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ…: ۵۰۹۶، عن أسامۃ بن زید رضی اللہ عنھما ] میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے علاوہ اپنی زینت چھپانے کا بھی حکم دیا، چنانچہ فرمایا کہ مومن عورتوں سے کہہ دے کہ (ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ) اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے۔ زینت کا معنی جمال اور حسن ہے۔ یہ دو قسم کی ہے، ایک فطری حسن و جمال اور دوسری جو بناؤ سنگار، زیبائش و آرائش اور زیور وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ لباس بھی زینت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: « خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ » [ الأعراف: ۳۱ ] ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔ اس میں زینت کا معنی لباس ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورتیں اپنی کوئی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو جائے، یعنی انھیں اپنے بدن اور اس کے بناؤ سنگار میں سے کوئی چیز ظاہر کرنا جائز نہیں مگر وہ کپڑے جنھیں چھپایا جا ہی نہیں سکتا، یا وہ زینت جو کسی کام یا حرکت کی وجہ سے بے اختیار ظاہر ہو جائے۔ الصحيح المسبور من التفسير بالمأثور میں ہے: طبری نے صحیح اسانید کے ساتھ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: «‏‏‏‏وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا» قَالَ هِيَ الثِّيَابُ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اس سے مراد کپڑے ہیں۔ حاکم نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ (مستدرک حاکم: ۲؍۳۹۷، ح: ۳۴۹۹) اور طبرانی (۹۱۱۶) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۷؍۸۲) میں فرمایا: طبرانی نے اسے کئی اسانید کے ساتھ مطول اور مختصر روایت کیا ہے، جن میں سے ایک سند کے راوی صحیحین (بخاری و مسلم) کے راوی ہیں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، بلکہ انھوں نے اس کے ساتھ بالیاں، کنگن، انگوٹھی، سرمہ اور منہدی بھی شامل کر دی ہے اور یہ کہا ہے کہ عورتوں کا چہرہ اور ہتھیلیاں مع زیور و آرائش وہ زینت ہے جو عورتوں کے لیے اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے ظاہر کرنا جائز ہے۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول پیش کرتے ہیں کہ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ نہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول پورا پیش کرتے ہیں اور نہ پردے کے متعلق ان کے دوسرے اقوال پیش نظر رکھتے ہیں۔ چہرے کے پردے کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما کا موقف طبری نے مشہور حسن سند (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) کے ساتھ بیان کیا ہے، لطف یہ ہے کہ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر جو چہرے کے پردے کے منکر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے نا مکمل بیان کرتے ہیں، وہ بھی اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: « يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا » [ الأحزاب: ۵۹ ] (اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: [ أَمَرَ اللّٰهُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِيْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ فِيْ حَاجَةٍ أَنْ يُّغَطِّيْنَ وُجُوْهَهُنَّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِهِنَّ بِالْجَلَابِيْبِ وَ يُبْدِيْنَ عَيْنًا وَاحِدَةً ] [ طبري:۲۸۸۸۰] اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ ایسا شخص جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے مومن عورتوں کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی رکھنے کو اللہ کا حکم قرار دیتا ہے وہ عورتوں کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو اپنوں اور بیگانوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنھم کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر اجنبیوں کے اعتبار سے فرمائی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر اپنے لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ اجنبیوں کے سامنے ظاہری کپڑوں کے سوا کوئی زینت ظاہر نہ کریں اور ابن عباس رضی اللہ عنھما کا مطلب یہ ہے کہ زینت ظاہرہ (چہرہ اور ہاتھ) خاوند کے علاوہ اپنے محرموں کے سامنے بھی ظاہر کر سکتی ہیں، جس میں سرمہ، منہدی، بالیاں، کنگن، ہار سب کچھ شامل ہے۔ ان محرموں کا بیان آگے فرما دیا: « وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ۠ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ » [ النور: ۳۱ ] البتہ زینت باطنہ (پیٹ، سینہ، ران اور مخفی حصے) صرف خاوند کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں۔ اب آپ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی مکمل تفسیر پڑھیں، جس کا صرف شروع کا حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ طبری نے (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس سے) حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آیت: « وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا » کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: [ وَالزِّيْنَةُ الظَّاهِرَةُ: الْوَجْهُ وَ كُحْلُ الْعَيْنِ وَ خِضَابُ الْكَفِّ وَ الْخَاتَمُ، فَهٰذِهِ تَظْهَرُ فِيْ بَيْتِهَا لِمَنْ دَخَلَ مِنَ النَّاسِ عَلَيْهَا ] [ طبري: ۲۶۱۷۰ ] زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ، آنکھ کا سرمہ، ہتھیلی کی منہدی اور انگوٹھی ہے، چنانچہ وہ یہ چیزیں اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے جو اس کے پاس اندر آتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما پر اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ وہ یہ زینت گھر کے اندر اپنے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ حضرات سرمہ و منہدی، گلے کے ہار اور کنگن اور انگوٹھی سمیت چہرے اور ہتھیلیوں کو اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے کھلا رکھنے کو ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول قرار دے رہے ہیں۔ [ فَیَا لِلْعَجَبِ وَلِضَیْعَۃِ الْأَدَبِ ]

➍ اب قرآن مجید اور احادیث و آثار سے چہرے کے پردے کے چند دلائل بیان کیے جاتے ہیں:

(1) سب سے پہلے زیر تفسیر آیت ہی کو دیکھیں، اس میں وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: « وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ » اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں گریبان پر پہلے ہی قمیص کا کپڑا موجود ہوتا ہے، اس کے باوجود اس پر اوڑھنی کا حکم دیا ہے، اب چہرے کے پردے کے منکر خود ہی غور فرمائیں کہ عورت کے حسن و جمال کے اصل مرکز چہرے کو مع سرمہ و زیور تو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو مرد کے لیے سراسر فتنہ ہے اور سینہ جس پر قمیص بھی تھی اسے مزید اوڑھنی کے ساتھ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا۔

(2) طبری نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا ایک قول نقل کیا ہے جو اللہ کے فرمان اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ کے متعلق ہے، ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: [ فَهٰذَا الرَّجُلُ يَتْبَعُ الْقَوْمَ وَهُوَ مُغَفَّلٌ فِيْ عَقْلِهِ لَا يَكْتَرِثُ لِلنِّسَاءِ وَلَا يَشْتَهِيْهِنَّ فَالزِّيْنَةُ الَّتِيْ تُبْدِيْهَا لِهٰؤُلَاءِ قُرْطَاهَا وَ قِلَادَتُهَا وَ سِوَارُهَا وَ أَمَّا خَلْخَالُهَا وَ مِعْضَدَاهَا وَ نَحْرُهَا وَ شَعْرُهَا فَإِنَّهَا لَا تُبْدِيْهِ إِلَّا لِزَوْجِهَا ] [ طبري: ۲۶۱۹۴ ] تو یہ وہ آدمی ہے جو کچھ لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور وہ عقل کا بدھو ہے، نہ اسے عورتوں کی پروا ہے نہ ان سے کوئی جنسی حاجت، تو وہ زینت جو ان لوگوں کے سامنے کھول سکتی ہے وہ اس کی بالیاں، ہار اور کنگن ہیں، رہی اس کی پازیب، بازو، سینہ اور بال تو وہ صرف خاوند کے سامنے کھول سکتی ہے۔

(3) وَ لَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ میں پاؤں کو زور سے زمین پر مارنے سے منع کیا کہ مردوں کو ان کے زیور کی آواز سے شہوانی خیال پیدا نہ ہو۔ اب ایک عورت جو معلوم نہیں جوان ہے یا بوڑھی، خوبصورت ہے یا بدصورت، اس کی پازیب کی آواز دلوں میں خرابی پیدا کرتی ہے اور اسے چھپائے رکھنے کا حکم ہے، تو چہرہ جس پر کسی عورت کے خوبصورت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو گیا؟

(4) « ٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا » [ الأحزاب: ۵۹ ] اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اس آیت کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں (اگر راستہ وغیرہ دیکھنے کی ضرورت ہو، ورنہ وہ بھی نہیں)۔ اس آیت سے استدلال کی مزید تفصیل کے لیے سورۂ احزاب ملاحظہ فرمائیں۔

(5) « وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِيْنَةٍ وَ اَنْ يَّسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ » ‏‏‏‏ [ النور: ۶۰ ] اور عورتوں میں سے بیٹھ رہنے والیاں، جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں، سو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار دیں، جب کہ وہ کسی قسم کی زینت ظاہر کرنے والی نہ ہوں اور یہ بات کہ (اس سے بھی) بچیں ان کے لیے زیادہ اچھی ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ استدلال کی تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر دیکھیے۔

(6) « لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْۤ اٰبَآىِٕهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآىِٕهِنَّ وَ لَاۤ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآءِ اِخْوَانِهِنَّ وَ لَاۤ اَبْنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَ لَا نِسَآىِٕهِنَّ وَ لَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ وَ اتَّقِيْنَ اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدًا » [ الأحزاب:۵۵ ] ان (عورتوں) پر کوئی گناہ نہیں اپنے باپوں (کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان (کے سامنے آنے) میں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور (اے عورتو!) اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح شاہد ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اجنبیوں سے حجاب کا حکم دیا تو وضاحت فرما دی کہ ان اقارب سے حجاب نہیں، جیسا کہ سورۂ نور کی آیت (۳۱): «‏‏‏‏وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ» ‏‏‏‏ میں وضاحت فرمائی ہے، جب ان اقارب سے پردہ نہ کرنے میں گناہ نہیں تو معلوم ہوا کہ اجنبیوں سے پردہ نہ کرنے میں گناہ ہے۔

(7) احادیث سے بھی عورتوں کے لیے پردے کا حکم ثابت ہے، یہاں چند احادیث درج کی جاتی ہیں، اس سے پہلے صحیح بخاری میں سے عائشہ رضی اللہ عنھا کی لمبی حدیث بیان ہو چکی ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں کہ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے تھے، وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے جہاں میں لیٹی ہوئی تھی، تو اس نے ایک سویا ہوا انسان دیکھا، پھر جب وہ میرے پاس آئے، تو اس نے مجھے پہچان لیا، کیونکہ وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے، تو میں نے اپنی بڑی چادر کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ [ بخاري: ۲۶۶۱ ] یہ حدیث صاف دلیل ہے کہ اگر حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے ام المومنین کو نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی نہ پہچان سکتے، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد انھیں دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

(8) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا: [ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا ] [ بخاري، الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ في الثیاب: ۳۵۱ ] یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بہن اسے پہننے کے لیے کوئی اپنی بڑی چادر دے دے۔ اگر پردہ فرض نہ ہوتا تو ان کے سوال کا جواب تھا کہ دوپٹا ہی کافی ہے، بڑی چادر کی ضرورت نہیں۔

(9) عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: اونٹوں کے سوار ہمارے پاس سے گزرتے، جب کہ ہم احرام کی حالت میں ہوتیں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی بڑی چادر سر سے چہرے پر لٹکا لیتی، جب گزر جاتے تو ہم اسے ہٹا دیتیں۔ [ أبوداوٗد، المناسک، باب في المحرمۃ تغطي وجھھا: ۱۸۳۳ ] عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا: اس حدیث میں ایک راوی پر کلام کیا گیا ہے، اسی لیے البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف ابی داؤد میں ذکر کیا ہے، لیکن انھوں نے مشکوٰۃ میں اسے حسن کہا ہے اور حجاب المرأۃ المسلمۃ میں بھی حسن کہا ہے اور اسماء رضی اللہ عنھا سے ایک صحیح سند کے ساتھ اس کا شاہد بھی ہے، چنانچہ یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔ تو احرام کی حالت میں، جب نقاب پہننا منع ہے، اگر پردہ واجب نہ ہوتا تو وہ چہرے پر چادریں کیوں لٹکاتیں؟

➎ اب ان لوگوں کے دلائل ملاحظہ فرمائیں جو چہرے اور ہتھیلیوں کے پردے کو واجب نہیں مانتے، ان کی سب سے بڑی دلیل قرآن مجید کے الفاظ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی تفسیر ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور صحابی کی تفسیر حجت ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنھما کا پورا قول اور اس کی وضاحت اوپر گزر چکی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنھما نے محرم رشتہ داروں کے سامنے چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی بات فرمائی ہے نہ کہ اجنبیوں کے سامنے اور اگر کسی کو اصرار ہو کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سب لوگوں کے سامنے عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رکھنے کے قائل ہیں، تو یاد رہے کہ کسی صحابی کی تفسیر اسی وقت حجت ہوگی جب دوسرے کسی صحابی نے اس کے خلاف تفسیر نہ کی ہو۔ یہاں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اجنبیوں کے سامنے صرف کپڑوں کا ظاہر ہو جانا جائز رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: «‏‏‏‏فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ» [ النساء: ۵۹ ] پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔ یعنی تنازع کے وقت کسی کی بات بھی حجت نہیں رہتی، اس وقت صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات حجت ہوتی ہے اور قرآن و سنت کی رو سے غیر محرم مردوں سے چہرے اور ہاتھوں کا پردہ واجب ہے، جیسا کہ آپ اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں۔

ان حضرات کی دوسری دلیل عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے رخ پھیر لیا اور فرمایا: [ يَا أَسْمَاءُ! إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيْضَ لَمْ يَصْلُحْ لَهَا أَنْ يُّرَی مِنْهَا إِلَّا هٰذَا وَ هٰذَا ] [ أبوداوٗد، اللباس، باب فیما تبدی المرأۃ من زینتھا: ۴۱۰۴ ] اسماء! عورت جب بلوغت کو پہنچ جائے تو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) اس کے سوا اور اس کے سوا اس کی کوئی چیز نظر آنا درست نہیں۔ اس حدیث سے عورت کا غیر محرم کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں ظاہر کرنا جائز ثابت ہوا۔ اس دلیل کے متعلق عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے: یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں انقطاع ہے (خود امام ابوداؤد نے فرمایا ہے کہ خالد بن دریک نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے نہیں سنا) اور اس میں سعید بن بشیر ضعیف ہے، پھر اس میں ولید کی تدلیس ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے، کیونکہ یہ بات بہت بعید ہے کہ اسماء بڑی عمر میں باریک کپڑوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں، کیونکہ ہجرت کے وقت ان کی عمر ستائیس برس تھی۔ محمد بن صالح بن عثیمین نے بھی رسالۃ ا