تفسیر القرآن الکریم

سورة الأنبياء
وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[38]
اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔[38]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 38)وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ …: یہ ان کے عذاب طلب کرنے میں جلدی کی تفصیل ہے۔ کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے اور آپ کا اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے بار بار پوچھتے کہ عذاب کا وہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ جھٹلانے کے ساتھ ساتھ چڑانے اور بھڑکانے کے لیے طنزاً یہ بھی کہتے کہ اگر تم سچے ہو۔ كُنْتُمْ ہمیشگی کا اظہار کرتا ہے اور صٰدِقِيْنَ اسم فاعل بھی سچ کے دوام کا اظہار کرتا ہے، یعنی تم جو ہمیشہ سچ بولتے ہو، تمھاری صفت ہی صادق ہے تو عذاب کا جو وعدہ تم نے کیا تھا وہ کب پورا ہو گا؟ (بقاعی)