تفسیر القرآن الکریم

سورة يونس
وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ[105]
اور یہ کہ تو اپنا چہرہ یکسو ہوکر اسی دین کی طرف سیدھا رکھ اور مشرکوں سے ہرگز نہ ہو۔[105]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 105) وَ اَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا …: حَنِيْفًا یکسو، ایک طرف ہو جانے والا یعنی تمام باطل معبودوں کو چھوڑ کر ایک اللہ ہی کا ہو جانے والا۔ حنیف بن کر مشرکین میں سے ہر گز نہ ہونے کی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے مشرک دینِ ابراہیم کے پیروکار ہونے کا دعویٰ رکھنے کی وجہ سے اپنے آپ کو حنیف کہتے، پھر شرک بھی کیے جاتے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حنیف بن مگر مشرکین میں سے ہر گز نہ ہو اور ایک معنی یہ ہے کہ کسی طرح بھی مشرکین کے ساتھ شامل نہ ہو، نہ شرک جلی میں اور نہ شرک خفی میں۔ ریا کو شرک خفی کہا جاتا ہے۔