تفسیر احسن البیان

سورة الأعراف
وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[28]
اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے۔ کہ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فاش بات کی تعلیم نہیں دیتا کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے۔ (1)[28]
تفسیر احسن البیان
28۔ 1 اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت کو اختیار کرکے طواف کرتے ہیں جو اس وقت تھی جب ہماری ماؤں نے جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اس کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ہم جو لباس پہنے ہوتے ہیں اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں، اس لئے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ چناچہ وہ لباس اتار کر طواف کرتے اور عورتیں بھی ننگی طواف کرتیں، اس لئے، صرف اپنی شرم گاہ پر کوئی کپڑا یا چمڑے کا ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرم ناک فعل کے لئے دو عذر انہوں نے اور پیش کیے۔ ایک تو یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بےحیائی کا حکم دے؟ یوں ہی تم اللہ کے ذمہ وہ بات لگاتے ہو جو اس نے نہیں کہی۔ جب انہیں حق کی بات بتائی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں یا ہمارے امام اور پیر و شیخ کا یہی حکم ہے، یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی، یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے (فتح القدیر)