تفسیر احسن البیان

سورة الانعام
بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ[41]
بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے (1)[41]
تفسیر احسن البیان
41۔ 1 اَرَءَیْتَکُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی اخبرونی (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے (دیکھئے سورة ء بقرہ آیت 561 کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسان ماحول، یا آباؤ اجداد کی مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے۔ نذر نیاز بھی انھی کے نام نکالتا ہے لیکن جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بےاختیار پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیئے۔ کاش لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔