تفسیر احسن البیان

سورة المائده
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ[54]
اے ایمان والو ! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھرجائے (1) تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی (2) وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے (3) یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔[54]
تفسیر احسن البیان
54۔ 1 اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا واقعہ نبی کریم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنہ مرتد کے خاتمے کا شرف حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ 54۔ 2 مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں، 1۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا 2۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا 3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، 4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ 54۔ 3 یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں داری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہوجائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔