أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا[77]
کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا (1) کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا ؟ (2) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا۔[77]
77۔ 1 مکہ میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز، زکوٰۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی اور جب اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خوہش کے مطاپق ہے۔ آیات قرآن میں تحریف: آیت کا پہلا حصہ جس میں کف ایدی (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ 77۔ 2 اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے مؤخر کیوں نہ کردیا یعنی اجلٍ قَریبٍ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے (ابن کثیر)۔