مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا[46]
بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے (1) اور ہماری رعایت کر (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی آپ سنیے ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر سے انہیں لعنت کی ہے پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔ (2)[46]
46۔ 1 یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ' ہم نے سنا ' کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے اسی طرح غیر مُسْمَعٍ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بد دعا کے طور پر کہتے۔ یعنی تیری بات قبول نہ ہو۔ راعنا۔ کی بابت دیکھئے سورة البقرہ آیت 14۔ کا حاشیہ۔ 46۔ 2 یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔