يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[12]
اے پیغمبر ! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں (1) اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔[12]
12۔ 1 یہ بیعت اس وقت لیتے جب عورتیں ہجرت کرکے آتیں جیسا کہ صحیح بخاری تفسیر سورة ممتحنہ میں ہے علاوہ ازیں فتح مکہ والے دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی عورتوں سے بیعت لی بیعت لیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے عہد لیتے کسی عورت کے ہاتھ کو آپ نہیں چھوتے تھے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں اللہ کی قسم بیعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ فرماتے کہ میں نے ان باتوں پر تجھ سے بیعت لے لی۔ صحیح بخاری۔ بیعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عہد بھی عورتوں سے لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی گریبان چاک نہیں کریں گی سر کے بال نہیں نوچیں گی اور جاہلیت کی طرح بین نہیں کریں گی۔ صحیح بخاری۔ اس بیعت میں نماز روزہ حج اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر نہیں ہے اس لیے کہ یہ ارکان دین اور شعائراسلام ہونے کے اعتبار سے محتاج وضاحت نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص ان چیزوں کی بیعت لی جن کا عام ارتکاب عورتوں سے ہوتا تھا تاکہ وہ ارکان دین کی پابندی کے ساتھ ان چیزوں سے بھی اجتناب کریں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علماودعاۃ اور واعظین حضرات اپنا زور خطابت ارکان دین کے بیان کرنے میں ہی صرف نہ کریں جو پہلے ہی واضح ہیں بلکہ ان خرابیوں اور رسموں کی بھی پر زور انداز میں تردید کیا کریں جو معاشرے میں عام ہیں اور نماز روزے کے پابند حضرات بھی ان سے اجتناب نہیں کرتے۔