وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ[9]
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو (1) پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے (2) اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو (3) اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (4)[9]
9۔ 1 اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔ 9۔ 2 یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہوجائے۔ 9۔ 3 یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آجائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔