تفسیر احسن البیان

سورة فاطر
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَئِكَ هُوَ يَبُورُ[10]
جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت (1) تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں (2) اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے جو لوگ برائیوں کے داؤں گھات میں لگے رہتے ہیں (3) ان کے لئے سخت تر عذاب ہے اور ان کا یہ مکر برباد ہوجائے گا (4)[10]
تفسیر احسن البیان
10۔ 1 یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہوجائے گا اس لیے کہ دنیا وآخرت کا مالک اللہ ہی ہے ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہوگا جس کو وہ ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔ 10۔ 2 اَ لْکَلِمُ، کَلِمَہ، ُ ایک جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح وتحمید، تلاوت ہے، چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا تاکہ اللہ انہیں جزا دے۔ 10۔ 3 خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفر و شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے اس طرح اللہ کے راستے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے نبی کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے تھے وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔ 10۔ 4 یعنی ان کا مکر بھی برباد ہوگا اور اس کا وبال انہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا (وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ) 35۔ فاطر:43)