تفسیر احسن البیان

سورة سبأ
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ وَقَالُوا مَا هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرًى وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ[43]
اور جب ان کے سامنے ہماری صاف صاف آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایسا شخص ہے (1) جو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روک دینا چاہتا ہے (اس کے سوا کوئی بات نہیں) ، اور کہتے ہیں یہ تو گھڑا ہوا جھوٹ ہے (2) اور حق ان کے پاس آچکا ہے پھر بھی کافر یہی کہتے رہے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے (3)۔[43]
تفسیر احسن البیان
43۔ 1 شخص سے مراد، حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ' جرم ' یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔ 43۔ 2 اس دوسرے ھٰذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔ 34۔ 3 قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم و مطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم و اسلوب اور اعجاز و بلاغت سے۔