إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ[11]
جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں 1 یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے 2 تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے 3 ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے 4۔[11]
11-1اِ فَک سے مراد وہ واقع افک ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ ؓ کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ کی حرمت میں آیت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ اِفْک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقع میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا کردیا تھا یعنی حضرت عائشہ تو ثنا تعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔ 11-2ایک گروہ اور جماعت کو عَصْبَۃ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ 11-3کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ کی حرمت میں ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و نصیحت کے اور کئی پہلو ہیں۔ 11-4اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔