تفسیر احسن البیان

سورة الإسراء/بني اسرائيل
عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا[8]
امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ ہاں اگر تم پھر بھی وہی کرنے لگے تو ہم دوبارہ ایسا ہی کریں گے (1) اور ہم نے منکروں کا قید خانہ جہنم بنا رکھا ہے (2)۔[8]
تفسیر احسن البیان
8۔ 1 یہ انھیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کرلی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کردیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرچکے ہیں چناچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کرچکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انھیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ 8۔ 2 یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انھیں بھگتنا ہوگا۔