تفسیر احسن البیان

سورة هود
قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ[91]
انہوں نے کہا اے شعیب ! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں (1) اور ہم تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں (2) اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے (3) اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے (4)۔[91]
تفسیر احسن البیان
91۔ 1 یہ یا تو انہوں نے بطور مذاق تحقیر کہا درآنحالیکہ ان کی باتیں ان کے لئے ناقابل فہم نہیں تھیں۔ اس صورت میں یہاں فہم کی نفی مجازا ہوگی۔ یا ان کا مقصد ان باتوں کے سمجھنے سے معذوری کا اظہار ہے جن کا تعلق غیب سے ہے۔ مثلا بعث بعدالموت، حشر نشر، جنت و دوزخ وغیرہ اس لحاظ سے، فہم کی فنی حقیقتا ہوگی۔ 91۔ 2 یہ کمزوری جسمانی لحاظ سے تھی، جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت شعیب ؑ کی بینائی کمزور تھی یا وہ نحیف و لاغر جسم کے تھے یا اس اعتبار سے انھیں کمزور کہا کہ وہ خود بھی مخالفین سے تنہا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ 91۔ 3 حضرت شعیب ؑ کا قبیلہ کہا جاتا ہے کہ ان کا مددگار نہیں تھا، لیکن وہ قبیلہ چونکہ کفر و شرک میں اپنی ہی قوم کے ساتھ تھا، اس لئے اپنے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کا لحاظ، بہرحال حضرت شعیب ؑ کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے اور انھیں نقصان پہنچانے میں مانع تھا۔ 91۔ 4 لیکن چونکہ تیرے قبیلے کی حیثیت بہرحال ہمارے دلوں میں موجود ہے، اس لئے ہم درگزر سے کام لے رہے ہیں۔