تفسیر احسن البیان

سورة يونس
إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ[3]
بلا شبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کردیا پھر عرش قائم ہوا (1) وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے (2) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس سفارش کرنے والا نہیں (3) ایسا اللہ تمہارا رب ہے سو تم اس کی عبادت کرو (4) کیا تم پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔[3]
تفسیر احسن البیان
3۔ 1 اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورة اعراف آیت 54 کا حاشیہ۔ 3۔ 2 یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ 3۔ 3 مشرکین و کفار، جو اصل ' مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ 3۔ 4 یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔