تفسیر احسن البیان

سورة التوبة
وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ[46]
اگر ان کا ارادہ جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے (1) لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا (2) اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کیساتھ بیٹھے رہو۔[46]
تفسیر احسن البیان
46۔ 1 یہ انہیں منافقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جنہوں نے جھوٹ بول کر اجازت حاصل کی تھی کہ اگر وہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے تو یقینا اس کے لئے تیاری کرتے۔ 46۔ 2 فثبطھم کے معنی ہیں انکو روک دیا، پیچھے رہنا ان کے لئے پسندیدہ بنادیا گیا، پس وہ سست ہوگئے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں نکلے مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں ان کی شرارتیں اور سازشیں تھیں، اس لئے اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ (2) یہ یا تو اسی مشیت الٰہی کی تعبیر ہے جو تقدیرا لکھی ہوئی تھی یا بطور ناراضگی اور غضب کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے تم عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کی صف میں شامل ہو کر ان کی طرح گھروں میں بیٹھے رہو۔