تفسیر احسن البیان

سورة الأعراف
يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[187]
یہ لوگ آپ سے قیامت (1) کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا (2) آپ فرما دیجئے اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے (3) اس کے وقت پر اس کو سوائے اللہ کے کوئی ظاہر نہ کرے گا وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا (4) وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وہ آپ اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں (5) آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔[187]
تفسیر احسن البیان
187۔ 1 سَاعَۃ، ُ کے معنی ہیں گھڑی (لمحہ یا پل) کے ہیں قیامت کو ساعۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اچانک اس طرح آجائے گی کہ پل بھر میں ساری کائنات درہم برہم ہوجائے گی یا سرعت حساب کے اعتبار سے قیامت کی گھڑی کو ساعۃ سے تعبیر کیا گیا۔ 187۔ 2 اَرْسَیٰ یُرْسِیْ کے معنی اثبات و وقوع کے ہیں، یعنی کب یہ قیامت ثابت یا واقع ہوگی۔ 187۔ 3 یعنی اس کا یقینی علم نہ کسی فرشتے کو ہے نہ کسی نبی کو، اللہ کے سوا اس کا علم کسی کے پاس نہیں، وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ 187۔ 4 اس کے ایک دوسرے معنی ہیں۔ اس کا علم آسمان اور زمین والوں پر بھاری ہے، کیونکہ وہ پوشیدہ ہے اور پوشیدہ چیز لوگوں پر بھاری ہوتی ہے۔ 187۔ 5 حَفِی، ُ کہتے ہیں پیچھے پڑ کر سوال کرنے اور تحقیق کرنے کو۔ یعنی یہ آپ سے قیامت کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑ کر اس کی بابت ضروری علم حاصل کر رکھا ہے۔