تفسیر احسن البیان

سورة الأعراف
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ[157]
جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (1) وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (2) اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے (3) ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں (1)[157]
تفسیر احسن البیان
157۔ 1 یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لئے آیت قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معتبر ہے جس کی تفصیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ اس آیت سے بھی تصور ' دیگر مذاہب ' کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ 157۔ 2 معروف وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا۔ 157۔ 3 یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، (دیت یا معافی نہیں تھی۔ یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اسے قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی اجازت دی وغیرہ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ' مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ 157۔ 4 ان آخری الفاظ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہونگے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں نقصان اٹھانے والے اور ناکام ہونگے۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی و فروانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر مشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں، لیکن ان کی یہ ترقی عارضی بطور امتحان و خلاف معمول ہے۔ یہ انکی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح (وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٗٓ) 7۔ الاعراف:157) سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ المائدہ کی آیت 15 میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے۔ اس لیے اس ‏‏نور سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفرو شرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نور من نور اللہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔