قرآن مجيد

سورة الانعام
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ[161]
کہہ دے بے شک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر دی ہے، جو مضبوط دین ہے، ابراہیم کی ملت، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا ۔[161]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 161، 162، 163،

بے وقوف وہی ہے جو دین حنیف سے منہ موڑ لے ٭٭

سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی جو نعمت ہے اس کا اعلان کردیں کہ اس رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صراط مستقیم دکھا دی ہے جس میں کوئی کجی یا کمی نہیں وہ ثابت اور سالم سیدھی اور ستھری راہ ہے “ -

«وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ» [2-البقرۃ:130] ‏‏‏‏ ” ابراہیم حنیف کی ملت ہے جو مشرکوں میں نہ تھے اس دین سے وہی ہٹ جاتا ہے جو محض بیوقوف ہو “ -

اور آیت میں ہے «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّـهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاكِرًا لِّأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [16-النحل:120-123] ‏‏‏‏ ” اللہ کی راہ میں پورا جہاد کرو وہی اللہ ہے جس نے تمہیں برگزیدہ کیا اور کشادہ دین عطا فرمایا جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے، ابراہیم (‏‏‏‏علیہ السلام) اللہ کے سچے فرمانبردار تھے مشرک نہ تھے اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے اللہ کے پسندیدہ تھے راہ مستقیم کی ہدایت پائے ہوئے تھے دنیا میں بھی ہم نے انہیں بھلائی دی تھی اور میدان قیامت میں بھی وہ نیک کار لوگوں میں ہوں گے “۔

” پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر کہ وہ مشرکین میں نہ تھا “ یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ علیہ السلام کی ملت کی پیروی کا حکم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ خلیل اللہ علیہ السلام آپ سے افضل ہیں اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام اس پر پورا ہوا اور یہ دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھوں کمال کو پہنچا۔

اسی لیے حدیث میں ہے کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں اور تمام اولاد آدم کا علی الاطلاق سردار ہوں اور مقام محمود والا ہوں جس سے ساری مخلوق کو امید ہو گی یہاں تک کہ خلیل اللہ علیہ السلام کو بھی ۔

ابن مردویہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت فرمایا کرتے تھے «أَصْبَحْنَا عَلَى مِلَّةَ الْإِسْلَامِ، وَكَلِمَةِ الْإِخْلَاصِ، وَدِيْنَ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، وَمِلَّةِ أَبِينَا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» یعنی ہم نے ملت اسلامیہ پر کلمہ اخلاص پر ہمارے نبی کے دین پر اور ملت ابراہیم حنیف پر صبح کی ہے جو مشرک نہ تھے - [مسند احمد:406/3:صحیح] ‏‏‏‏

حضور علیہ السلام سے سوال ہوا کہ سب سے زیادہ محبوب دین اللہ کے نزدیک کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جو یکسوئی اور آسانی والا ہے ۔ [مسند احمد:236/1:حسن لغیره] ‏‏‏‏

مسند کی حدیث میں ہے کہ جس دن ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں پر منہ رکھ کر حبشیوں کے جنگی کرتب ملاحظہ فرمائے تھے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ اس لیے کہ یہودیہ جان لیں کہ ہمارے دین میں کشادگی ہے اور میں یکسوئی والا آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں - [مسند احمد:116/6:حسن] ‏‏‏‏

اور حکم ہوتا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے اپنا مخالف ہونا بھی بیان فرما دیں وہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں دوسروں کے نام پر ذبیحہ کرتے ہیں میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی کے نام پر ذبیح کرتا ہوں “ -

چنانچہ بقرہ عید کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو مینڈھے ذبح کئے تو «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [6-الانعام:79] ‏‏‏‏، کے بعد یہی آیت پڑھی ۔ [سنن ابوداود:2795، قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

آپ علیہ السلام ہی اس امت میں اول مسلم تھے اس لیے کہ یوں تو ہر نبی علیہ السلام اور ان کی ماننے والی امت مسلم ہی تھی، سب کی دعوت اسلام ہی کی تھی سب اللہ کی خالص عبادت کرتے رہے جیسے فرمان ہے آیت «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ» [21-الأنبياء:25] ‏‏‏‏ یعنی ” تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول ہم نے بھیجے سب کی طرف وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تم سب میری ہی عبادت کرو “۔

نوح علیہ السلام کا فرمان قرآن میں موجود ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر تو میرے رب کے ذمہ ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں رہوں۔‏‏‏‏

اور آیت میں ہے «وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ» [2-البقرة:130-132] ‏‏‏‏ ” ملت ابراہیمی سے وہی ہٹتا ہے جس کی قسمت پھوٹ گئی ہو، وہ دنیا میں بھی برگزیدہ تھا اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں سے ہے اسے جب اس کے رب نے فرمایا تو تابعدار بن جا اس نے جواب دیا کہ میں رب العالمین کا فرمانبردار ہوں اسی کی وصیت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچوں کو کی تھی اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کہ اے میرے بچو اللہ نے تمہارے لیے دین کو پسند فرما لیا ہے۔ پس تم اسلام ہی پر مرنا “۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی آخری دعا میں ہے «رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ» [12-يوسف:101] ‏‏‏‏ ” یا اللہ تو نے مجھے ملک عطا فرمایا خواب کی تعبیر سکھائی آسمان و زمین کا ابتداء میں پیدا کرنے والا تو ہی ہے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیک کاروں میں ملا دینا “۔

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّسْلِمِينَ فَقَالُوا عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ» [10-يونس:84-86] ‏‏‏‏ ” میرے بھائیو اگر تم ایماندار ہو اگر تم مسلم ہو تو تمہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے سب نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل رکھا ہے، اللہ! ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا اور ہمیں اپنی رحمت کے ساتھ ان کافروں سے بچا لے “۔

اور آیت میں فرمان باری ہے «إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ» [5-المائدة:44] ‏‏‏‏ ” ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت و نور ہے جس کے مطابق وہ انبیاء حکم کرتے ہیں جو مسلم ہیں یہودیوں کو بھی اور ربانیوں کو بھی اور احبار کو بھی “۔

اور فرمان ہے آیت «وَاِذْ اَوْحَيْتُ اِلَى الْحَوَارِيّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِيْ وَبِرَسُوْلِيْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ» [5-المائدة:111] ‏‏‏‏ ” میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ سب نے کہا ہم نے ایمان قبول کیا ہمارے مسلمان ہونے پر تم گواہ رہو “۔

یہ آیتیں صاف بتلا رہی ہیں کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو اسلام کے ساتھ ہی بھیجا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی اپنی مخصوص شریعتوں کے ساتھ مختص تھے احکام کا ادل بدل ہوتا رہتا تھا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے ساتھ پہلے کے کل دین منسوخ ہوگئے اور نہ منسوخ ہونے والا نہ بدلنے والا ہمیشہ رہنے والا دین اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا جس پر ایک جماعت قیامت تک قائم رہے گی اور اس پاک دین کا جھنڈا ابد الآباد تک لہراتا رہے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت علاقی بھائی ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے - [صحیح بخاری:3443] ‏‏‏‏ -

بھائیوں کی ایک قسم تو علاقی ہے جن کا باپ ایک ہو مائیں الگ الگ ہوں ایک قسم اخیافی جن کی ماں ایک ہو اور باپ جدا گانہ ہوں اور ایک عینی بھائی ہیں جن کا باپ بھی ایک ہو اور ماں بھی ایک ہو۔ پس کل انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہے یعنی اللہ «وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» کی عبادت اور شریعت مختلف ہیں بہ اعتبار احکام کے۔ اس لیے انہیں علاتی بھائی فرمایا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اولیٰ کے بعد نماز میں «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [6-الانعام:79] ‏‏‏‏ اور یہ آیت «إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ» پڑھ کر پھر یہ پڑھتے «اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، أَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الأَخْلاَقِ، لاَ يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلاَّ أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا، لاَ يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلاَّ أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ، أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ» یہ حدیث لمبی ہے اس کے بعد راوی نے رکوع و سجدہ اور تشہد کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔ [صحیح مسلم:771] ‏‏‏‏