قرآن مجيد

سورة الانعام
أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[122]
اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنا دی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں۔ اسی طرح کافروں کے لیے وہ عمل خوشنما بنا دیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔[122]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 122،

مومن اور کافر کا تقابلی جائزہ ٭٭

مومن اور کافر کی مثال بیان ہو رہی ہے ایک تو وہ جو پہلے مردہ تھا یعنی کفر و گمراہی کی حالت میں حیران و سرگشتہ تھا اللہ نے اسے زندہ کیا، ایمان و ہدایت بخشی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چسکا دیا قرآن جیسا نور عطا فرمایا جس کے منور احکام کی روشنی میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے اسلام کی نورانیت اس کے دل میں رچ گئی ہے -

دوسرا وہ جو جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہے جو ان میں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح مسلم و کافر میں بھی تفاوت ہے نور و ظلمت کا فرق اور ایمان و کفر کا فرق ظاہر ہے۔ اور آیت میں ہے «اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ» [2-البقرۃ:257] ‏‏‏‏ ” ایمان داروں کا ولی اللہ تعالیٰ ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کافروں کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ ابدی جہنمی ہیں “۔

اور آیت میں ہے «أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَىٰ وَجْهِهِ أَهْدَىٰ أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ» [67-الملك:22] ‏‏‏‏ یعنی ” خمیدہ قامت والا ٹیڑھی راہ چلنے والا اور سیدھے قامت والا سیدھی راہ چلنے والا کیا برابر ہے؟ “۔

اور آیت میں ہے «مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا أَفَلَا تَذَكَّرُونَ» [11-ھود:24] ‏‏‏‏ ” ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے بہرے اور سنتے دیکھتے کی طرح ہے کہ دونوں میں فرق نمایاں ہے افسوس پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے “۔

اور جگہ فرمان ہے «وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ إِنْ أَنتَ إِلَّا نَذِيرٌ» [35-فاطر:19-23] ‏‏‏‏ ” اندھا اور بینا، اندھیرا اور روشنی، سایہ اور دھوپ، زندے اور مردے برابر نہیں۔ اللہ جسے چاہے سنا دے لیکن تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے “ اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں اس سورۃ کے شروع میں «وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ» [6-الأنعام:1] ‏‏‏‏ ظلمات اور نور کا ذکر تھا اسی مناسبت سے یہاں بھی مومن اور کافر کی یہی مثال بیان فرمائی گئی۔

بعض کہتے ہیں مراد اس سے وہ خاص معین شخص ہیں، جیسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہ یہ پہلے گمراہ تھے اللہ نے انہیں اسلامی زندگی بخشی اور انہیں نور عطا فرمایا جسے لے کر لوگوں میں چلتے پھرتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ہیں اور ظلمات میں جو پھنسا ہوا ہے اس سے مراد ابوجہل ہے۔

صحیح یہی ہے کہ آیت عام ہے ہر مومن اور کافر کی مثال ہے، کافروں کی نگاہ میں ان کی اپنی جہالت و ضلالت اسی طرح آراستہ و پیراستہ کر کے دکھائی جاتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر ہے کہ وہ اپنی برائیوں کو ہی اچھائیاں سمجھتے ہیں۔

مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کر کے پھر اپنا نور ان پر ڈالا جسے اس نور کا حصہ ملا اس نے دنیا میں آکر راہ پائی اور جو وہاں محروم رہا وہ یہاں بھی بہکا ہی رہا ۔ [مسند احمد:176/2:صحیح] ‏‏‏‏۔

جیسے فرمان ہے کہ ” اللہ نے اپنے بندوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جاتا ہے “ اور جیسے فرمان ہے ” اندھا اور دیکھتا اور اندھیرا اور روشنی برابر نہیں “۔