«وفاۃ صغریٰ» یعنی چھوٹی موت کا بیان ہو رہا ہے اس سے مراد نیند ہے، جیسے اس آیت میں ہے «اِذْ قَال اللّٰهُ يٰعِيْسٰٓى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيْمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ» [3-آل عمران:55] یعنی ” جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تجھے فوت کرنے والا ہوں (یعنی تجھ پر نیند ڈالنے والا ہوں) اور اپنی طرف چڑھا لینے والا ہوں “۔
اور جیسے اس آیت میں ہے «اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ» [39-الزمر:42] یعنی ” اللہ تعالیٰ نفسوں کو ان کی موت کے وقت مار ڈالتا ہے اور جن کی موت نہیں آئی انہیں نیند کے وقت فوت کر لیتا ہے (یعنی سلا دیتا ہے) موت والے نفس کو تو اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسرے کو مقررہ وقت پورا کرنے کے لیے پھر بھیج دیتا ہے “۔
اس آیت میں دونوں وفاۃ بیان کر دی ہیں، وفاۃ کبریٰ اور وفاۃ صغریٰ اور جس آیت کی اس وقت تفسیر ہو رہی ہے اس میں بھی دونوں وفاتوں کا ذکر ہے، وفاۃ صغری ٰ یعنی نیند کا پہلے پھر وفاۃ کبریٰ یعنی حقیقی موت کا۔ بیچ کا جملہ آیت «وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى» [6۔ الأنعام:60] جملہ معترضہ ہے جس سے اللہ کے وسیع علم کی دلالت ہو رہی ہے کہ وہ دن رات کے کسی وقت اپنی مخلوق کی کسی حالت سے بےعلم نہیں، ان کی حرکات و سکنات سب جانتا ہے۔
جیسے فرمان ہے آیت «سَوَاءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهٖ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ» [13۔ الرعد:10] یعنی ” چھپا کھلا رات کا دن کا سب باتوں کا اسے علم ہے “۔
اور آیت میں ہے «وَمِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ» [28-القصص:73] یعنی ” یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے سکون کا وقت رات کو بنایا اور دن کو تلاش معاش کا وقت بنایا “۔
اور آیت میں ارشاد ہے «وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا» [78۔النبأ:11۔10] ” رات کو ہم نے لباس اور دن کو سبب معاش بنایا “۔
یہاں فرمایا ” رات کو وہ تمہیں سلا دیتا ہے اور دنوں کو جو تم کرتے ہو اس سے وہ آگاہ ہے، پھر دن میں تمہیں اٹھا بٹھا دیتا ہے “۔ ایک معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ ” وہ نیند میں یعنی خواب میں تمہیں اٹھا کھڑا کرتا ہے “ لیکن اول معنی ہی اولیٰ ہیں۔
ابن مردویہ کی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے جو سونے کے وقت اس کی روح کو لے جاتا ہے پھر اگر قبض کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ اس روح کو نہیں لوٹاتا ورنہ بحکم الٰہی لوٹا دیتا ہے ۔ [الدر المنشور للسیوطی:29/3:ضعیف]
یہی معنی اس آیت کے جملے «وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ» [6۔ الأنعام:60] کا ہے تاکہ اس طرح عمر کا پورا وقت گزرے اور جو اجل مقرر ہے وہ پوری ہو، قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے پھر وہ ہر ایک کو اس کے عمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک اور بدوں کو برا، وہی ذات ہے جو ہر چیز پر غالب و قادر ہے اس کی جلالت عظمت عزت کے سامنے ہر کوئی پست ہے بڑائی اس کی ہے اور سب اس کے سامنے عاجز و مسکین ہیں وہ اپنے محافظ فرشتوں کو بھیجتا ہے جو انسان کی دیکھ بھال رکھتے ہیں۔
جیسے فرمان عالیشان ہے آیت «لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ» [13۔الرعد:11] پس یہ فرشتے تو وہ ہیں جو انسان کی جسمانی حفاظت رکھتے ہیں اور دائیں بائیں آگے پیچھے سے اسے بحکم الٰہی بلاؤں سے بچاتے رہتے ہیں، دوسری قسم کے وہ فرشتے ہیں جو اس کے اعمال کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کی نگہبانی کرتے رہتے ہیں۔
جیسے فرمایا آیت «وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ» [82-الانفطار:12-10] ان ہی فرشتوں کا ذکر آیت «اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌ» [50-ق:17] میں ہے۔
پھر فرمایا ” یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو سکرات کے عالم میں اس کے پاس ہمارے وہ فرشتے آتے ہیں جو اسی کام پر مقرر ہیں “۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”ملک الموت کے بہت سے مددگار فرشتے ہیں جو روح کو جسم سے نکالتے ہیں اور حلقوم تک جب روح آ جاتی ہے پھر ملک الموت اسے قبض کر لیتے ہیں۔“
اس کا مفصل بیان آیت «يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ» [14-إبراهيم:27] میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔
پھر فرمایا ” وہ کوئی کمی نہیں کرتے “ یعنی روح کی حفاظت میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اسے پوری حفاظت کے ساتھ یا تو علین میں یک روحوں سے ملا دیتے ہیں یا سجبین میں بری روحوں ڈال دیتے ہیں۔ پھر وہ سب اپنے سچے مولٰی کی طرف بلا لیے جائیں گے۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مرنے والے کی روح کو نکالنے کے لیے فرشتے آتے ہیں اور اگر وہ نیک ہے تو اس سے کہتے ہیں اے مطمئن روح جو پاک جسم میں تھی تو نہایت اچھائیوں اور بھلائیوں سے چل تو راحت و آرام کی خوشخبری سن تو اس رب کی طرف چل جو تجھ پر کبھی خفا نہ ہو گا، وہ اسے سنتے ہی نکلتی ہے اور جب تک وہ نکل نہ چکے تب تک یہی مبارک صدا اسے سنائی جاتی ہے پھر اسے آسمانوں پر لے جاتے ہیں اس کیلئے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے اس کی آؤ بھگت کرتے ہیں مرحبا کہتے ہوئے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور جو موت کے فرشتوں نے کہا تھا وہی خوشخبری یہ بھی سناتے ہیں یہاں تک کہ اسی طرح نہایت تپاک اور گرم جوشی سے فرشتوں کے استقبال کے ساتھ یہ نیک روح اس آسمان تک پہنچتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہے۔ (اللہ تعالیٰ ہماری موت بھی نیک پر کرے)۔
اور جب کوئی برا آدمی ہوتا ہے تو موت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں کہ اے خبیث روح جو گندے جسم میں تھی تو بری بن کر چل گرم کھولتے ہوئے پانی اور سڑی بھسی غذا اور طرح طرح کے عذابوں کی طرف چل، پھر وہ اس روح کو نکالتے ہیں اور یہی کہتے رہے ہیں پھر اسے آسمان کی طرف چڑھاتے ہیں دروازہ کھولنا چاہتے ہیں، آسمان کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں اس خبیث نفس کے لیے مرحبا نہیں، یہ تھا بھی ناپاک جسم میں تو برائی کے ساتھ لوٹ جا، تیرے لیے آسمانوں کے دروازے نہیں کھلتے، چنانچہ اسے زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے، پھر قبر پر لائی جاتی ہے، پھر قبر میں ان دونوں روحوں سے سوال جواب ہوتے ہیں ۔ [مسند احمد:364/2:صحیح] جیسے پہلی حدیثیں گزر چکیں۔
” پھر اللہ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں “، اس سے مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتے لوٹائے جاتے ہیں یا یہ کہ مخلوق لوٹائی جاتی ہے یعنی قیامت کے دن، پھر جناب باری ان میں عدل و انصاف کرے گا اور احکام جاری فرمائے گا، جیسے فرمایا آیت «قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْنَ لَمَجْمُوعُونَ إِلَىٰ مِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ» [56-الواقعة:49-50] یعنی ” کہہ دے کہ اول آخر والے سب قیامت کے دن جمع ہوں گے “۔
اور آیت میں ہے آیت «وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا» [18-الكهف:47] ” ہم سب کو جمع کریں گے اور کسی کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے “۔
یہاں بھی فرمایا کہ «مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ» [6-الأنعام:62] ” اپنے سچے مولٰی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ جو بہت جلدی حساب لینے والا ہے۔ اس سے زیادہ جلدی حساب میں کوئی نہیں کر سکتا “۔