قرآن مجيد

سورة البقرة
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ[74]
پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بے شک پتھروں میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بے شک ان میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں اور اللہ اس سے ہر گز غافل نہیں جو تم کر رہے ہو۔[74]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 74،

پتھر دل لوگ ٭٭

اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے۔ اسی لیے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا «‏‏‏‏أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ‌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ» ‏‏‏‏ [57-الحديد:16] ‏‏‏‏ یعنی ” کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:234/2] ‏‏‏‏ اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے۔

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے «تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا» [ 17۔ الاسرآء: 44 ] ‏‏‏‏ یعنی ” ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے “۔

ابوعلی جیانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی رحمہ اللہ بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بے دلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا ہے، بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے «يُرِ‌يدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ» [18-الكهف:77] ‏‏‏‏ یعنی ” دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی “۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔

رازی قرطبی رحمہ اللہ علیہما وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ دیکھئیے اس کا فرمان ہے «اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ» [ 33۔ الاحزاب: 72 ] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے، اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے “۔ اور جگہ ہے «وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ» [ 55-سورة الرحمن-6 ] ‏‏‏‏ یعنی ” اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں “۔ اور فرمایا «يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ» [ 16-النحل-48 ] ‏‏‏‏ اور فرمایا «قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاىِٕعِيْنَ» [ 41۔ فصلت: 11 ] ‏‏‏‏ یعنی ” زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں “۔

اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے «وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّـهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ» [ 41-سورة فصلت-21 ] ‏‏‏‏ یعنی ” گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے “۔

ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ [صحیح بخاری:2889] ‏‏‏‏

ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ [صحیح بخاری:918] ‏‏‏‏ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ [صحیح مسلم:2277] ‏‏‏‏ حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا۔ [سنن ترمذي:961، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر۔

آیت میں لفظ «او» جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی رحمہ اللہ علیہما تو کہتے ہیں کہ یہ تخییر کے لیے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت۔

رازی رحمہ اللہ نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لیے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔



اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لیے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی ان کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے «وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا» [ 76۔ الانسان: 24 ] ‏‏‏‏ میں اور «عُذْرًا أَوْ نُذْرًا» [ المرسلات: ٦ ] ‏‏‏‏ میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لیے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے «كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً» [ 4۔ النسآء: 77 ] ‏‏‏‏ میں اور «وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ» [ 37۔ الصافات: 147 ] ‏‏‏‏ میں اور «فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى» [ 53۔ النجم: 9 ] ‏‏‏‏ میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لیے ایسا کلام کرتے ہیں۔

قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ» [ 34۔ سبأ: 24 ] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں “۔ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لیے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے «كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا» [ 2۔ البقرہ: 17 ] ‏‏‏‏ پھر فرمایا «او کصیب» اور فرمایا ہے «کسراب» پھر فرمایا «او کظلمات» مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ [سنن ترمذي:2411،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے۔

بزار میں انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا، دل کا سخت ہو جانا، امیدوں کا بڑھ جانا، لالچی بن جانا۔ [بزار فی کشف الاستار:343:ضعیف] ‏‏‏‏