قرآن مجيد

سورة الانعام
قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ[15]
کہہ دے اگر میں اپنے رب کی نا فرمانی کروں تو بے شک میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔[15]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 12، 13، 14، 15، 16،

ہر چیز کا مالک اللہ ہے ٭٭

آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے، سب اللہ کا ہے، اس نے اپنے نفس مقدس پر رحمت لکھ لی ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جب پیدا کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس اس کے عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے ۔ [صحیح بخاری:3194] ‏‏‏‏

پھر اپنے پاک نفس کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ ” وہ اپنے بندوں کو قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اور وہ دن یقیناً آنے والا ہے شکی لوگ چاہے شک شبہ کریں لیکن وہ ساعت اٹل ہے “۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ کیا اس دن پانی بھی ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس دن پانی ہو گا، اولیاء اللہ ان ہوضوں پر آئیں گے جو انبیاء علیہم السلام کی ہوں گی۔ ان حوضوں کی نگہبانی کیلئے ایک ہزار فرشتے نور کی لکڑیاں لیے ہوئے مقرر ہوں گے جو کافروں کو وہاں سے ہٹا دیں گے ۔ [ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے لیکن ہے غریب۔

ترمذی شریف کی حدیث میں ہے ہر نبی علیہ السلام کے لیے ہوض ہو گا مجھے امید ہے کہ سب سے زیادہ لوگ میرے حوض پر آئیں گے ۔ [سنن ترمذي:2443،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور اس دن کو نہیں مانتے وہ اپنی جانوں سے خود ہی دشمنی رکھتے ہیں اور اپنا نقصان آپ ہی کرتے ہیں، زمین و آسمان کی ساکن چیزیں یعنی کل مخلوق اللہ کی ہی پیدا کردہ ہے اور سب اس کے ماتحت ہے، سب کا مالک وہی ہے، وہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کی حرکتیں جاننے والا ہے، چھپا کھلا سب اس پر روشن ہے۔

پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنہیں توحید خالص کے ساتھ اور کامل شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ حکم دیتا ہے کہ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کر دیں کہ آسمان و زمین پیدا کرنے والے اللہ کے سوا میں کسی اور کو اپنا دوست و مددگار نہیں جانتا، وہ ساری مخلوق کا رازق ہے سب اس کے محتاج ہیں اور وہ سب سے بے نیاز ہے “۔

فرماتا ہے ” میں نے تمام انسانوں جنوں کو اپنی غلامی اور عبادت کیلئے پیدا کیا ہے “، ایک قرأت میں «وَلَا یَطْعَمُ» بھی ہے یعنی ” وہ خود نہیں کھاتا “۔

قباء کے رہنے والے ایک انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانا تناول فرما کر ہاتھ دھو چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے جو سب کو کھلاتا ہے اور خود نہیں کھاتا، اس کے بہت بڑے احسان ہم پر ہیں کہ اس نے ہمیں ہدایت دی اور کھانے پینے کو دیا اور تمام بھلائیاں عطا فرمائیں اللہ کا شکر ہے جسے ہم پورا ادا کر ہی نہیں سکتے اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں، ہم اس کی ناشکری نہیں کرتے، نہ اس سے کسی وقت ہم بے نیاز ہو سکتے ہیں، «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» اللہ نے ہمیں کھانا کھلایا، پانی پلایا، کپڑے پہنائے، گمراہی سے نکال کر رہ راست کھائی، اندھے پن سے ہٹا کر آنکھیں عطا فرمائیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہمیں فضیلت عنایت فرمائی۔ اللہ ہی کے لیے سب تعریفیں مختص ہیں جو تمام جہان کا پالنہار ہے ۔ [نسائی فی السنن الکبری:10133/6:صحیح] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ ” اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اعلان کر دو کہ مجھے حکم ملا ہے کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کا غلام میں بن جاؤں “۔ پھر فرماتا ہے ” خبردار ہرگز ہرگز مشرکوں سے نہ ملنا، یہ بھی اعلان کر دیجئیے کہ مجھے خوف ہے اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے قیامت کے دن عذاب ہوں گے جو اس روز عذابوں سے محفوظ رکھا گیا یقین ماننا کہ اس پر رحمت رب نازل ہوئی، سچی کامیابی یہی ہے “

اور آیت میں فرمایا ہے «فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ» [3-آل عمران:185] ‏‏‏‏ ” جو بھی جہنم سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا اس نے منہ مانگی مراد پالی “۔ «فَوْزٌ» کے معنی نفع مل جانے اور نقصان سے بچ جانے کے ہیں۔